ہندوستان اور ترکی دونو ں ہی ہمیشہ ایک طرفہ پابندیوں کے خلاف رہے ہیں

,

   

صنعتی جنگوں سے دونوں ہی متاثر ہیں جو نظر نہیں آتا۔ تعاون کے شعبہ میں دیگر وعدوں پر ہندوستان اور ترکی کے درمیان افریقہ اور بحرہند کے سمندری علاقے شامل ہیں۔

ہندوستان کی طرح ایس 400دفاعی نظام خریدنے کا ترکی فیصلہ ہندوستان کی عکاسی کرتا ہے جہاں دونوں ممالک میں قومی مفاد کو بلاتر رکھنے والی حکومتیں اقتدار میں ہیں اور آگے بڑھ رہی ہیں۔

کسی بھی ملک کی عامریت کے ذریعہ ایک طرفہ پابندیوں کے ترکی اور ہندوستان دونوں ہمیشہ مخالف رہے ہیں‘وہیں صرف اقوام متحدہ کی حمایت کی ہے۔

یہی وجہہ ہے کہ دونوں کو ان کی دفاعی اور توانائی کی ضرورتوں‘ ان کے لئے سزا کی کوششیں بنیں۔دونوں حکومتیں مخالف تحفظ کی سخت حمایتی ہیں۔

صنعتی جنگوں سے دونوں ہی متاثر ہیں جو نظر نہیں آتا۔

تعاون کے شعبہ میں دیگر وعدوں پر ہندوستان اور ترکی کے درمیان افریقہ اور بحرہند کے سمندری علاقے شامل ہیں۔دونوں ممالک ان کے جغرافیہ میں ایک دوسرے کے تجربے سے میکانزم برائے فوائد کو اجاگر کررہے ہیں۔

حال ہی میں ہوئی اوساکا میٹنگ نے وزیراعظم نریندر مودی اور صدر اردغان کو تازہ مواقع فراہم کئے ہیں تاکہ ترجیحات پر مشتمل آپسی تعاون کے تمام امکانی شعبوں کا جائزہ لے سکیں۔

میٹنگ کے پس منظر میں ان کا سوشیل میڈیاپیغام واضح ہے۔

ترکی نے جولائی 15کے روز ان کی جمہوریت پر ہونے والی باغی حملہ کی تیسری یادگار تقریب منعقد کی ہے‘ جس کی سازش اٹلانٹا کے دیگر ساحلوں سے کی گئی ہے‘ جس میں 251شہریوں نے فوجی لباس زیب تن کئے دہشت گردوں کے ٹینکس لے کر داخل ہوگئے تھے۔

اس واقعہ میں 2500سے زائد لوگوں ملک کی درالحکومت انقرہ اور استنبول میں میں زیادہ تر زخمی ہوئے تھے۔

دہشت گردوں نے ائیر فورس کے فائٹرس کو اپنے قبضے میں لے لیاتھا‘ پارلیمنٹ پر بمباری کی‘ آرمی او رپولیس ہیڈکوارٹر س کو نشانہ بنایا وہیں دوسرے گروپ صدر اور ان کی فیملی کو تحویل میں لینے کی کوشش کی تھی۔

وہ ایف ای ٹی او فتح السٹ دہشت گرد تنظیم تھی‘ کو خاموشی کے ساتھ ریاست کواریڈار میں داخل ہوگئی جو پچھلے تیس سالوں میں مصلح دستوں‘ عدلیہ اور پولیس میں بھی شامل تھی۔

بارہ گھنٹوں کے اندر ملک اس بدبختانہ واقعہ سے باہر آگیا۔ابھی فضاؤں میں گرد باقی ہی تھی وہ عظیم جمہوریت ہندوستان کے لیڈر مسٹر نریندر مودی ہی تھی جنھوں نے صدر اردغان تک بذریعہ فون رسائی کی اور ترکی جمہوریت کے ساتھ اپنے یگانگت کا اظہار کیا۔

مغرب کے نام نہاد ”جمہوری پاسباں“ کئی ہفتوں تک اس معاملے پرخاموش رہے۔ اس کے بعد سے ترکی اپنے زخموں کو مندمل کرنے میں لگارہا۔

صاف او رشفاف قانونی کاروائی کے بعد زیادہ تر دہشتگردوں کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیاگیا۔جو فرار ہوگئے انہیں ”خودساختہ جمہوریتوں“ نے پناہ دی ہے۔

میرے 36سالے سفارتی کیریر کے پچھلے چھ سالوں میں میں نے ہندترکی باہمی تعلقات کے معاملات انجام دئے ہیں۔ آج میں فخر کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ دونوں ممالک اپنے رشتوں کے بہترین دور میں ہیں۔

اوساکا میں جون29کے روز دونوں ممالک کے لیڈران نے ایک اور مرتبہ جی 20سمٹ کے دوران ملاقات کی۔ نومبر2015میں انٹالا کی جی20سمٹ کے دوران پہلی ملاقات کے بعد سے ان دونوں کے رشتوں نے ایک نئی اونچائی حاصل کرلی ہے۔

سال2017میں ترکی کے صدر طیب رجب اردغان کے سرکاری دورے نے ایک نیاسنگ میل پارکرلیاتھا۔ اس وقت اردغان کے ساتھ 400مضبوط قائدین کا وفد تھا‘ جس کی ہندوستانی قیادت سے ثمر آور با ت ہوئی۔

اس دورے کے بعد باہمی تجارت 6.4بلین سے بڑھ کر 8.7بلین ڈالر تک پہنچ گئی۔ہندوستان اورترکی کے تہذیب’تاریخ اور اقدار میں مماثلت ہے۔

عامریت کے خلاف بڑی قیمت اداکرنے کے بعد ہی دونوں کو آزادی ملی ہے۔

سال2019میں مغربی ترکی پر قبضہ کی کوششیں جالیاں والا باغ کے پس پردہ عناصر کے ساتھیوں نے کی تھی۔آج ہندوستان اورترکی جی20کے اراکین میں شامل ہیں۔

ہندوستان اورترکی دونوں ہی دہشت گردی کے اسی صفحہ پر شامل ہیں۔ فبروری 14کے روز انقارہ دنیا کی پہلی درالحکومتوں میں شامل تھا جس نے پلواماں دہشت گرد حملے کی سختی کے ساتھ فوری طور سے مذمت کی تھی