ہندوستان میں اسلام تلوار کے زور پر نہیں پھیلا۔ اغیار کو اسلامی اوصاف نے متاثر کیا

   

نئی کتاب “Peaceful Expansion of Islam in India” کا اجراء
نئی دہلی۔/20مارچ ، ( پریس ریلیز) سید عبید الرحمن کی تازہ ترین کتاب “Peaceful Expansion of Islam in India” ( بھارت میں اسلام کا پُرامن فروغ ) برصغیر میں اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کو بالکل مختلف انداز میں پیش کرتی ہے۔ درحقیقت ملک میں اسلام کی آمد کے بارے میں اس قدر تحقیق شدہ مفصل کتاب اس دیرینہ قیاس کو ختم کردیتی ہے کہ اسلام ہندوستان میں شمال کے راستے آیا اور طاقت اور تلوار کے زور سے پھیلا۔ عبیدالرحمن نے باریک بینی سے تحقیق و تجزیئے سے ثابت کیا ہے کہ اسلام ہندوستان میں اس وقت آیا جب عرب میں اسلام پھیلنا شروع ہوا۔ عرب تاجروں کے ہندوستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کی ایک طویل روایت تھی۔ اسلام کی آمد سے بہت پہلے سے وہ تجارت کے لئے نہ صرف مالابار بلکہ چین تک جاتے تھے۔ اسلام کی آمد کے بعد وہ جہاں، جہاں بھی گئے نئے مذہب کو ساتھ لے گئے۔ اس طرح دہلی اور شمالی ہندوستان کے مختلف حصوں میں اسلام کی آمد سے بہت پہلے ہی مسلمان نہ صرف مالابار اور کیرالا میں بلکہ تامل ناڈو، کونکن، گوا، گجرات اور مہاراشٹرا کے کئی حصوں میں بھی بڑی تعداد میں آباد ہوچکے تھے۔ عبیدالرحمن کہتے ہیں کہ تاجروں اور صوفیاء کرام نے ہندوستان کو عمومی اندازوں سے کہیں زیادہ متاثر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ بار بار یہ دعویٰ کہ برصغیر ہندوپاک میں اسلام تلوار کے استعمال سے یا طاقت کے زور سے پھیلا، اسے اکثر لوگ‘ بشمول مسلمان بھی سچ سمجھنے لگے۔ تاہم وہ مزید کہتے ہیں کہ یہ سچائی کی مکمل تحریف ہے اور بہت سے مغربی ماہرین بشمول وہ لوگ جو اپنے سخت مسلم مخالف نقطہ نظر کیلئے جانے جاتے ہیں اس حقیقت کو تسلیم کرتے چلے آئے ہیں کہ ہندوستان کے بہت سے خطوں میں اسلام طاقت کے استعمال کے بغیر پُرامن طریقوں سے پھیلا۔” Periplus of the Erythraean Sea” کے مصنف کا دعویٰ ہے کہ پہلی صدی عیسوی کے دوران بھی Muziris (Cranganore) کا شہر مالابار کی غیرمتنازعہ یا اصل بین الاقومی بندرگاہ تھا۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس شہر میں تجارتی بحری جہازوں کی بھرمار تھی جو نہ صرف عرب بلکہ یونانیوں سے بھی سامان لے کر جاتے تھے۔ عربوں نے اسلام کی آمد سے بہت پہلے مالابار میں آباد ہونا شروع کردیا تھا۔ پلینی کے مطابق یمن اور حضرموت کے لوگ خاص طور پر مالابار ساحل پر بڑی تعداد میں پائے جاتے تھے۔ تاہم عرب کیرالا اور مالابار میں نہیں رُکے اور وہاں سے وہ ہندوستان کے مغربی ساحل پر تقریباً پر اہم بندرگاہ کے علاوہ خلیج بنگال تک پھیل گئے۔ عبید الرحمن کا دعویٰ ہے کہ ہندوستان کے بیشتر حصوں میں خاص طور پر مالابار، کونکن، گوا، کرناٹک، تمل ناڈو، کشمیر، گجرات اور یہاں تک کہ ملک کے باقی حصوں میں اسلام کا پھیلاؤ پُرامن طریقوں سے ہوا۔ لوگوں نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کیا۔ ٹی ڈبلیو آرنلڈکا حوالہ دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ’’ 66 ملین ہندوستانی مسلمانوں سے بڑی تعداد میں مذہب تبدیل کرنے والے یا مذہب تبدیل کرنے والوں کی اولادیں ہیں، جن کے تبدیلیٔ مذہب میں قوت یا تلوار نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ یہ لوگ صوفیائے کرام اور مسلم مشنریز کے کردار سے متاثر ہوکر مسلمان ہوئے۔ اگر اسلام جنوبی ہندوستان میں تاجروں کے ذریعہ پھیلا تو ملک کے شمالی علاقوں میں صوفیاء کرام نے اسے عوام میں مقبول بنانے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ نہ صرف عوام بلکہ ان کا اثر حکمراں طبقہ پر بھی جگ ظاہر ہے۔ ایک مشہور صوفی بلبل شاہ کے ہاتھوں کشمیر کے بادشاہ رنجن شاہ کے قبول اسلام کے واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ صوفیائے کرام نے ہندوستان میں زندگی کے تقریباً ہر پہلو کو متاثر کیا اور آبادی کے ہر طبقہ کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ مقامی لوگوں کے ساتھ برابری اور مساوات کا برتاؤ بھی لوگوں کے اسلام سے متاثر ہونے کی اہم وجہ بنی۔ اسلام قبول کرتے ہی نچلے طبقات کے افراد کی معاشرتی حیثیت بالکل تبدیل ہوجاتی تھی۔ اس کتاب میں کیرالا، تامل ناڈو، گجرات، مہاراشٹرا، گوا، بنگال اور کشمیر میں اسلام کی ابتدائی آمد کے بارے میں تفصیلی ابواب ہیں۔ اس میں صوفیاء کرام کے بارے میں بھی ایک تفصیلی باب ہے جنہوں نے پورے ملک پر گہرا اثر ڈالا اور اسلام کو شمال سے جنوب اور ملک کے مشرقی حصوں سے لے کر مغربی حصوں تک مقبول کیا۔ یہ کتاب یقینی طور پر اس بات پر ایک طویل مدتی اثر ڈالے گی کہ ہم برصغیر پاک و ہند میں اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کو کس طرح دیکھتے ہیں۔ اس کی بہت ضرورت تھی اور ایسے وقت جب اسلامو فوبیا اپنے عروج پر ہے تو سید عبیدالرحمن کو اس اہم کتاب کی تصنیف پر داد دینی چاہیئے، جس کے پبلشر گلوبل میڈیا پبلکیشنز ہے۔ 9818327757 پر ربط پیدا کرسکتے ہیں۔