ہندوستان میں جا بجا دردناک مناظر حکومت غافل

   

ابو معوذ
سال 1984 میں بالی ووڈ کی ایک فلم ’’مشعل‘‘ ریلیز ہوئی تھی جس میں شہنشاہ جذبات دلیپ کمار نے اپنی اداکاری کا غیر معمولی مظاہرہ کیا تھا۔ اس فلم میں انہوں نے مشعل نامی ایک اخبار کے دیانتدار اور قانون کی پاسداری کرنے والے ایڈیٹر کا رول ادا کیا اور پھر ناانصافیوں و ظلم کا شکار ہوکر ڈان بن گئے۔ اس فلم میں وحیدہ رحمان نے دلیپ کمار کی بیمار بیوی کا رول ادا کیا تھا۔ ایک مرحلہ پر وحیدہ رحمان بیمار ہو جاتی ہیں اور دلیپ کمار ان کے علاج کے لئے اِدھر اُدھر دوڑ پڑتے ہیں اور ایک ایسا وقت آتا ہے جب وہ مدد کے لئے لوگوں کو آوازیں دیتے ہیں کہ ’’بھائی کوئی ہے جو میری مدد کرے‘‘ دلیپ کمار نے وہ ڈائیلاگ اس انداز میں ادا کئے کہ آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں وہ منظر محفوظ ہے اور موجودہ حالات میں ایسا لگتا ہے کہ ہر شہر، ہر گاوں اور قومی شاہراہ پر دلیپ کمار کی وہی آواز گونج رہی ہے کہ بھائی کوئی ہے جو میری مدد کرے۔ کورونا وائرس نے ہندوستان کو تباہی و بربادی سے دوچار کردیا، معیشت کا اس قدر برا حال ہوگیا ہے کہ یومیہ 18 ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ جبکہ ہر روز 100 تا 200 لوگ اپنی زندگیوں سے محروم ہو رہے ہیں۔ آپ کو یہ جان کرحیرت ہوگی کہ 67 دن پہلے ہمارے ملک میں کورونا متاثرین کی تعداد 500 کے اندر تھی اور اس وقت صرف 9 افراد فوت ہوئے تھے لیکن آج 1.73 لاکھ سے زائد لوگ متاثر ہوچکے ہیں۔ سطور بالا میں راقم الحروف نے دلیپ کمار کے ڈائیلاگ کا حوالہ دیا تھا ایسا ہی ڈائیلاگ اب ہر موڑ پر سنائی دینے لگا ہے۔ ایسے ایسے المناک مناظر ہمارے نظروں سے گذررہے ہیں جو شاید ساری انسانیت کے لئے شرمساری کا باعث ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ہندوتوا کی بنیاد پر مذہبی جذبات کا استحصال کرتے ہوئے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے والوں کو یہ آوازیں سنائی نہیں دے رہی ہیں۔ جئے پور۔ دہلی شاہراہ سے گذرنے والوں نے ایک ایسا منظر دیکھا جس نے شاید ہر ہندوستانی کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔ وہاں سے گذرنے والے ٹرکس اور گاڑیوں میں سے کسی ایک گاڑی کے نیچے آکر مرنے والے کتے کا گوشت ایک آدمی کھا رہا تھا جس سے اس مجبور و بے بس و بے کس ہندوستانی باشندہ کی شدت بھوک کا احساس ہوتا ہے۔ اسی دوران کسی نے اپنے فون پر یہ سارا منظر قید کرلیا اور سوشل میڈیا پر وائرل کردیا جس میں وہاں سے گذرنے والے لوگوں میں سے ایک کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ ارے بھائی کیا کھا رہا ہے، مر جائے گا، ہماری طرف آو ہم تمہیں کھانا دیں گے۔

تب مردار کتے کا گوشت نوچ نوچ کر کھانے کی کوشش کرنے والا شخص اس گاڑی کی طرف دوڑ پڑتا ہے اور پھر اسے دیا ہوا صاف ستھرا کھانا کھاتا ہے۔ ہم ہندوستانیوں نے بہار کے مظفر پور ریلوے اسٹیشن پر مقصود عالم کو بھی بڑی بے چینی و اضطراب کے عالم میں ادھر ادھر دوڑتے بھاگتے اور مدد کے لئے چیختے چلاتے دیکھا گیا۔ وہ ریلوے کے عہدہ داروں کے آگے ہاتھ جوڑ رہا تھا، ان کے پیر چھو رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ میرے بچے کو بچالو، ڈاکٹر کو بلالو، لیکن کسی نے بھی اس کی فریاد نہیں سنی اور مقصود عالم کا ڈھائی سالہ بچہ اپنے باپ کی گود میں دم توڑ گیا۔ مظفر پور ریلوے اسٹیشن پر صرف یہی ایک المناک واقعہ پیش نہیں آیا بلکہ 35 سالہ اروینا خان کی موت بھی لوگوں کو رولا گئی۔ جس وقت اروینا کی نعش سورت سے آنے والی ٹرین سے اتاری گئی اور ریلوے اسٹیشن پر رکھی گئی اس وقت اروینا کا ڈھائی سالہ معصوم بیٹا یہ سوچ کر کہ اس کی ماں سو رہی ہے اس کے قریب پہنچتا ہے اور ماں کی نعش پر پڑی ہوئی چادر کو کھینچنے لگتا ہے شاید وہ لڑکا اپنی تتلی زبان میں اپنی ماں سے یہ کہہ رہا ہو کہ ماں اٹھ اپنا گھر آگیا ہے لیکن اس بدقسمت لڑکے کو کیا پتہ کہ اس کی ماں اپنے حقیقی مکان کی طرف رواں دواں ہونے والی ہے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سوگئی ہے۔ یہی واقعہ ہماری مرکزی و ریاستی حکومتوں بلکہ ہم تمام ہندوستانیوں کے لئے باعث شرم نہیں بلکہ ایسے بے شمار واقعات پیش آئی جس نے ہمیں بار بار شرم سار کیا ہے اور دنیا بھر میں پشیمانی کا سامنا کرنا پڑا۔ دنیا نے ایک ایسا منظر بھی دیکھا جب ایک 15 سالہ بہاری لڑکی جیوتی کماری 1200 کیلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے لئے 7 دن لیتی ہے لیکن اپنی زخمی باپ کو سائیکل پر بٹھائے اپنے گھر پہنچاتی ہے۔ اس سفر کے دوران جیوتی کو کس قدر پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا اس کا اندازہ کاش وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کرتے لیکن ان لوگوں سے اس طرح کی امید نہیں کی جاسکتی۔ ہندوستان نے ایسے منظر بھی دیکھے جس میں مزدور ماں باپ کی نعشوں پر 5 سال سے کم عمر کے دو بھائی بہن آہ و بکا کررہے تھے۔ رات کا ایک بج رہا تھا اور اس تاریکی و ویرانی میں دو معصوم بچوں کے سسکیوں کی آوازیں آرہی تھیں لیکن ان آوازوں کو سننے کے لئے وہاں کوئی نہیں تھا۔ ہم مزدوروں کی بے بسی کے تعلق سے جب بات کرتے ہیں تو چھتیس گڑھ کی وہ لڑکی بھی یاد آتی ہے جو تلنگانہ سے پیدل ہی چل پڑی تھی اور عین اپنے گھر کے قریب پہنچ کر اس نے دم توڑ دیا۔ ہندوستان نے مہاراشٹرا کے جالنا اور اورنگ آباد کے درمیان ریلوے پٹریوں پر اُن 16 مزدوروں کے نعشوں کے ٹکڑے بھی دیکھیں ہیں جو تھک ہار کر پٹریوں پر سو گئے تھے۔ ان کی ہمیشہ ہمیشہ کی نیند بھی مودی حکومت کو خواب غفلت سے بیدار کرنے میں ناکام رہی۔ بہرحال مزدوروں کے دردناک واقعات ہماری حکومت کی جھولی میں کئی اور واقعات کے ساتھ پڑے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود ہمیں یقین ہے کہ حکومت حرکت میں آنے والی نہیں۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ 20 لاکھ کروڑ روپے کے راحتی پیاکیج کا اعلان کرنے میں پہل کرچکی ہے لیکن اس سے مزدوروں، غریبوں کا کیا فائدہ۔ حد تو یہ ہے کہ جن لوگوں نے مودی حکومت کے کہنے پر تالیاں بجائی تھیں وہ بھی اب خون کے آنسو رو رہے ہیں۔