ہندوستان میں کفر اور اسلام کے درمیان مقابلہ آخری مرحلہ میں

   

مسلمان شعور کا مظاہرہ کریں ، مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی نقشبندی کا خطاب
حیدرآباد۔19اپریل(سیاست نیوز) ہندستان میں کفر اور اسلام کے درمیان مقابلہ آخری مرحلہ میں پہنچ چکا ہے اور اگر مسلمان اس وقت بھی اپنے شعور کا مظاہرہ نہیں کرتے ہیں تو آئندہ انہیں منکر کو تبدیل کرنے کا موقع بھی میسر نہیں ہوگا۔ ہندستانی مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار ہوتے ہوئے 100 فیصد رائے دہی کو یقینی بنانے کے لئے کوشش کرنی چاہئے اور اپنے گھر کی خواتین کو اس بات کی ترغیب دیں کہ وہ اپنے حق رائے دہی کو استعمال کریں تاکہ ملک کا اقتدار دوبارہ دہشت گردوں کے ہاتھ میں نہ جائے اور ملک کے دستور کو تبدیل ہونے سے بچایا جاسکے۔ مولانا خلیل الرحمن سجادنعمانی نقشبندی نے آج شہر حیدرآباد میں نماز جمعہ سے قبل مسجد اکبری اکبر باغ میں اپنے فکر انگیز خطاب کے دوران امت مسلمہ کے نوجوانوں کو قرآن سمجھنے اور ملک کے حالات سے نمٹنے کے لئے تیار رہنے کی تلقین کی۔ انہو ںنے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں محض عبادات کا حکم نہیں دیا ہے بلکہ قرآن کے ذریعہ عالمی سیاست اور اقوام کے حالات کو بھی امت پر منکشف کیا ہے ۔ انہوں نے اپنے بیان کے دوران سورہ روم کی ابتدائی آیات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس دور میں مشرکین اور اہل کتاب کے دوران ہونے والی جنگوں کا مشاہدہ کرنے والے اہل اسلام کی یہ خواہش ہوا کرتی تھی کہ اللہ اہل کتاب کو کامیابی عطا کرے اور کفاران مکہ یہ چاہتے تھے کہ منکرین و مشرکین کی کامیابی ہو۔ جزائر عرب ‘ مکہ و مدینہ سے دور ہونے والی ان جنگوں کے متعلق قرآن نے خبریں سنائی جو کہ اہل ایمان کے لئے مایوس کرنے والی اور خوش کرنے والی دونوں ہی تھیں حالانکہ مشرکین اور اہل کتاب دونوں ہی سے مسلمانوں کا تعلق نہیں تھا لیکن اہل کتاب جو کم ظالم تھے مسلمان ان کی حمایت کرتے ہوئے خوش ہوتے تھے ۔ مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی نے ملک میں جاری انتخابات کو آخری موقع قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہندستان میں توحید کے ماننے والوں سے ان کا کلمہ ‘ ان کی مساجد ان کی عبادتیں اور ان کے مدارس چھیننے کی تیاری ہوچکی ہے اور اٹل بہاری واجپائی کے دور حکومت میں جو دستور تیار کیا گیا تھا اسے نافذ کرنے کے لئے موجودہ حکومت کوشاں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مسلمان اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ نئی دستور سازی کی جانی ہے بلکہ دستور تیار ہے اسے نافذکرنا ہے جو کہ مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کردے گی ان سے ان کے مذہب کو چھین لیا جائے گا۔ مولانا نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ ہندستان میں ظالم و جابر حکومت کے خاتمہ کے لئے ہندستانی مسلمانوں کو اپنا فرض عین اداکرنے کے لئے حق رائے دہی کا استعمال کرنا ہوگا کیونکہ ان کا ووٹ صرف ملک میں حکومت کی تبدیلی کے لئے نہیں ہوگا بلکہ ملک میں شریعت کے تحفظ اور مظلوموں کے ساتھ انصاف کے لئے ہوگا۔ انہو ںنے حیدرآباد میں شادی خانوں کی بہتات اور فضول رسومات و تقاریب میں شاہ خرچی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جو ان شادی خانوں کو آباد کر رہے ہیں دراصل وہ اللہ کے پاس مجرموں کی فہرست میں اپنا نام درج کروا رہے ہیں۔ انہوں نے ملک کے موجودہ حالات اور انتخابات کے اس موقع کو حاملہ کو ہونے والے درد زہ یعنی بچہ کی ولادت سے قبل ہونے والی تکلیف سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ حمل کے دوران ہونے والی تکالیف کے بعد بچہ تولد ہونے سے قبل درد کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے اور اب ہندستان کے حالات اس درد کی شدت سے دوچار ہیں لیکن اس درد کے گذرنے کے ساتھ ہی سارے ماحول میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے کیونکہ نئی زندگی نئے دور کا آغاز ہوتا ہے اسی لئے ان انتخابات کے دوران ظالم و دہشت گرد حکمرانوں کے خلاف اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے اقتدار کی تبدیلی کو یقینی بنائیں ۔ مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی نقشبندی نے اپنے خطاب کے دوران تاریخ اسلام کے اوراق کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ امت مسلمہ کے نوجوانوں میں یہ تاثر پیدا کیا جا رہاہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین دیہاتی تھے لیکن یہ بات بالکل غلط ہے کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ کے یہ ساتھی اس دور میں کئی مہارتو ں کے حامل تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ فوجداری قوانین کے ماہر اور منصف تھے ‘ حضرت عمر بن خطاب ؓ دیوانی قوانین کے ماہر و عدالت میں منصف تھے اسی طرح حضرت عثمان بن عفانؓ اپنے دور کے ملٹی نیشنل تاجر تھے اور حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ عدلیہ اور قانون کے ماہر ترین تھے اور قدرتی قوانین کے ماہر تھے۔ ابو عبیدہ بن جراح ؓ ماہر معاشیات و خزانہ تھے حضرت خالد بن ولیدؓساری دنیا میں اسلامی فوج کے کمانڈر ان چیف تھے۔مولانا نے کہا کہ آج ہندستان میں مسلمانو ںکو اپنے اسلاف کی تعلیمات کا مشاہدہ کرتے ہوئے دیگر ابنائے وطن سے تعلقات استوار کرتے ہوئے ان کے ساتھ ملکر حکومت کو بیدخل کرنا ہے۔ انہو ںنے بتایا کہ ملک میں کسان‘ مزدور‘ جاٹ‘ ٹھاکر اور کئی طبقات ظالم حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کے لئے کمر باندھ چکے ہیں لیکن بدقسمتی سے مسلمان مایوسی کے عالم میںہے جبکہ اللہ نے انہیں یہ آخری موقع دیا ہے اگر اس موقع سے استفادہ نہیں کیاجاتا ہے تو اس ملک میں کروڑوں کی تعداد میں مسلمان مرتد ہونے لگ جائیں گے۔انہوں نے بتایا کہ برسراقتدارجماعتجو 370 اور 400 پار کی بات کر رہی ہے اس کا مقصد محض ایک ہے اور وہ ہے دستوری ترمیمات کے لئے درکار تعداد حاصل کرے کیونکہ اس کے لئے ایک چوتھائی تعداد لازمی ہے اسی لئے یہ انتخابات اہمیت کے حامل ہیں۔3