’’ہندی ‘‘پورے ہندوستان کی زبان شاہ نے پرانے تنازعہ کو نئی ہوا دی

   

… ڈی کے مشرا …
بی جے پی کی حکمت علمی سے ساری دنیا واقف ہے کہ وہ پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کے فارمولے پر عمل کرتی ہے چاہے وہ مذہب کے ذریعہ ہو،علاقے کی بنیاد پر ہو یا پھر زبان کے اعتبار سے ہو ۔ اس مرتبہ اس فارمولے کے لئے وزیر داخلہ امیت شاہ نے اپنے کمان سے اب ایک نیا تیر نکال لیا ہے اور یہ تیر ’’ہندی‘‘ زبان ہے۔ شاہ نے ہندی کو پورے ملک کی مشترکہ زبان بنانے کا بیان دے کر ایک پرانے تنازعہ کو نئی ہوا دی ہے۔ اب اگر زبان کے نام پر ٹکراؤ ہوتا ہے اور لوگ ایک دوسرے کے مد مقابل آجاتے ہیں تو اس میں حیرت نہیں ہونی چاہیے اور اگر ایسا ہوا تو پھر ہندوستان شمال اور جنوب میں تقسیم ہوکر رہ جائے گا۔ ابھی تو بنگلور اور جنوب کے دیگر شہروں میں کچھ احتجاج ہوا ہے لیکن اگر حکومت نے ہندی کو تھوپنے کی کوشش کی تو اس کے سنگین نتائج بھی برآمد ہو سکتے ہیں کیونکہ جنوب کی کئی قدآور شخصیتوں نے شاہ کے بیان کی جو مخالفت کی ہے ان افراد کی عوام میں مقبولیت کے گراف کی بلندی کا شاید حکومت کو اندازہ نہیں ہے۔ ہندی زبان کی بالادستی بی جے پی اور آر ایس ایس کی پالیسی کا ایک حصہ رہی ہے۔ وہ پہلے بھی ہندی کو تھوپنے کی کوشش کر چکے ہیں۔ جس کی وجہ سے کافی ہنگامے بھی ہوئے ۔ خاص طور پر جنوب میں اس پالیسی کے خلاف زبردست احتجاج ہوا ہے۔ ہندوستان میں زبان کے نام پر فسادات کی بھی ایک تاریخ رہی ہے جن میں متعدد افراد کو اپنی جانیں گنوانی پڑی ہیں لہٰذا دانشمندی کا تقاضہ تو یہ ہے کہ لسانی جھگڑے نہ کھڑے کیے جائیں اور جس طرح لوگ اپنی پسند کی زبان بولتے اور لکھتے ہیں ان کو وہی زبان استعمال کرنے دی جائے اگر اس کے خلاف کیا گیا تو نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا ہے۔امیت شاہ نے جو باتیں کہی ہیں ان میں سے کئی ایسی ہیں جن کا جواب دیا جا سکتا ہے۔

شاہ نے کہا کہ ہندی ہی ایک ایسی زبان ہے جو پورے ملک کو متحد رکھ سکتی ہے۔ یہ سراسر بے بنیاد منطق ہے بلکہ سچائی یہ ہے کہ اگر ہندی کو پورے ملک پر تھوپنے کی کوشش کی گئی تو حالات خراب ہو سکتے ہیں۔ لوگ زبان کے نام پر مختلف خانوں میں بٹ سکتے ہیں۔ کیا امیت شاہ اس کا جواب دیں گے کہ ہندی پورے ملک کی زبان نہیں ہے تو کیا اب تک ہندوستان متحد نہیں رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اردو زبان پورے ملک کی مشترکہ زبان رہی ہے اور اسے بتدریج اور ایک سازش کے تحت ختم کیا گیا۔ اور اس وقت ہندی نہیں بلکہ انگریزی رابطے کی زبان ہے۔انہوں نے ہندی دیوس پر اپنی تقریر میں کہا کہ ہماری قدیم تاریح تہذیب اور جنگ آزادی کی یاد کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی مقامی زبانوں کو محفوظ کریں اور کم از کم ایک زبان ایسی ہو جسے پورا ملک جانے۔ اگر ہندی کو تحریک آزادی سے الگ کر دیا جائے تو پوری جنگ کی روح تباہ ہو جائے گی۔ یہ بیان انتہائی گمراہ کن ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام علاقائی زبانوں کا تحفظ ضروری ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ پورا ملک ایک ہی زبان جانے۔جہاں تک جنگ آزادی میں ہندی زبان کے کردار کی بات ہے تو جنگ آزادی کا آغاز تو اردو زبان نے کیا تھا۔ جنگ آزادی کے ہمارے جتنے پیشوا ہیں سب اردو کا استعمال کرتے تھے۔ جتنی تحریکیں چلیں خواہ وہ ریشمی رومال تحریک ہو یا دیگر تحریکیں سبھی نے اردوکو اپنا سہارا بنایا۔ انقلاب زندہ باد کا نعرہ اردو نے دیا۔ امیت شاہ کہتے ہیں کہ ہندی کو نکال دیا جائے تو پوری تحریک آزادی کی روح تباہ ہو جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اردوکو نکال دیا جائے تو پوری تحریک آزادی کی عمارت اچانک زمین بوس ہوجائے گی۔ امیت شاہ کو تاریخ پڑھنی چاہیے اور اس کے بعد ایسا کوئی بیان دینا چاہیے۔ اس وقت پوری دنیا میں رابطے کی اگر کوئی زبان ہے تو وہ انگریزی ہے۔ امیت شاہ کہتے ہیں کہ ایک زبان کی ضرورت ہے تاکہ غیر ملکی زبانیں یہاں اپنی جگہ نہ بنا سکیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج ہندی پڑھ کر کوئی اچھی ملازمت حاصل کی جا سکتی ہے۔ زمانے کی ترقی کا ساتھ دینے کے لیے کہا جاتا ہے کہ دوسری زبانوں کا علم حاصل کرو۔ ایسے لوگوں کی بہت بڑی تعداد ہے جو یونیورسٹیوں میں دوسرے ملکوں کی زبانیں پڑھ کر اچھی ملازمتیں کر رہے ہیں۔ ہندی زبان کی بنیاد پر تو اپنے ہی ملک میں کوئی اچھی ملازمت حاصل نہیں کی جا سکتی تو پھر غیر ممالک میں حاصل کرنا کہاں آسان ہوگا۔ امیت شاہ نے جنگ آزادی اور ہندی کے حوالے سے مہاتما گاندھی کا بھی نام لیا۔ لیکن کیا انھیں یہ بات نہیں معلوم کہ گاندھی جی ہندی کے حمایتی نہیں تھے۔ وہ ہندوستانی کے حمایتی تھے۔ یعنی ایک ایسی زبان جس میں ہندی بھی ہو، اردو بھی ہو، مقامی زبانوں کے الفاظ بھی ہوں۔ ایک ایسی زبان جس کو پورا ملک سمجھ سکے۔ جو نہ مشکل ہندی ہو نہ ہی مشکل اردو۔ لیکن ہندوستانی کو رواج دینے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اور زبردستی ہندی کو تھوپنے کی سازش کی گئی۔ آج دنیا کے تمام علوم کا سرمایہ انگریزی زبان میں ہے۔ کیا کمپیوٹر کی زبان کو ہندی میں لکھا جا سکتا ہے۔ بالکل نہیں۔ اگر ماوس، کی بورڈ، ہارڈوئر، سافٹ ویر، پین ڈرائیو جیسے الفاظ کو ہندی کا جامہ پہنا دیا گیا تو کیا ہوگا۔ ابھی تک تو ریلوے اسٹیشن ہی کی ہندی نہیں بنی ہے۔ اسے ہندی میں بھک بھک اڈہ کہا جاتا ہے۔ ٹرین کی آسان ہندی بنی ہی نہیں۔ اسے لوگ پتھ گامنی کہا جاتا ہے۔ اسی طرح بہت سے ایسے عوامی الفاظ ہیں جن کی آسان ہندی ہو ہی نہیں سکتی۔ ان کو انگریزی یا اردو ہی میں بولا جا سکتا ہے۔ عدالتوں اور تھانوں میں استعمال ہونے والی زبان ہندی نہیں اردو ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اردو رسم الحظ کے بتدریج ختم ہونے جانے کے بعد وہ الفاظ ہندی رسم الخط میں لکھے جانے لگے ہیں۔ لیکن ہیں وہ اردو کے الفاظ۔ ابھی ہجومی تشدد کے ایک مقدمہ میں ایک تھانیدار نے کہا کہ مضروب نے جو بات بتائی ہے۔ اب یہ مضروب کس زبان کا لفظ ہے۔ اردو کا ہے ہندی کا نہیں ہے۔ امیت شاہ کے بیان پر مغربی بنگال، کرناٹک اور تمل ناڈو میں شدید احتجاج ہوا ہے۔ خود حکمراں محاذ میں شامل ایک پارٹی اے آئی اے ڈی ایم کے نے ان کے بیان پر سخت اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ امیت شاہ کا یہ بیان ملک کی تکثیریت پر ایک حملہ ہے۔ اس نے کہا ہے کہ صرف 45 فیصد افراد ہی ہندی بولتے ہیں اس کو پورے ملک کی زبان کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ تمل ناڈو کے وزیر ثقافت پانڈی راجن نے کہا ہے کہ اگر حکومت نے یکطرفہ طور پر ہندی کو تھوپنے کی کوشش کی تو اس کے خلاف رد عمل ہوگا اور نہ صرف تمل ناڈو میں بلکہ مغربی بنگال، کرناٹک ، تلنگانہ اورآ ندھرا پردیش میں بھی ہوگا۔تمل ناڈو کی اپوزیشن جماعت ڈی ایم کے نے بھی اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ امیت شاہ کا یہ بیان قومی اتحاد کے لیے شدید نقصاندہ ہے۔ لہٰذا وہ اپنا بیان فوراً واپس لیں۔ ایم کے اسٹالن کے مطابق یہ بیان انتہائی تکلیف دہ ہے۔ ایک ملک ایک زبان کی پالیسی غیر ہندی بھاشی عوام کو جان بوجھ کر دوسرے درجے کا شہری ہونے کا احساس دلانا ہے۔دستور نے ہر شہری کو اپنی زبان کے استعمال اور اس کے فروغ کی آزادی دی ہے لیکن امیت شاہ کا یہ بیان اس کے برعکس ہے۔٭