ہند ۔ بنگلہ دیش تعلقات

   

بنگلہ دیش کے حالیہ پارلیمانی انتخابات اور عوامی لیگ کی کامیابی کے بعد ہندوستان اور بنگلہ دیش کے دیرینہ تعلقات کے بارے میں توقع کی جارہی ہے کہ یہ مزید مستحکم ہوں گے ۔ وزیراعظم نریندر مودی نے وزیر اعظم کی حیثیت سے مسلسل چوتھی مرتبہ منتخب ہونے والی شیخ حسینہ کو مبارکباد دیتے ہوئے ہند ۔ بنگلہ دیش باہمی روابط کو فروغ دینے کی خواہش ظاہر کی ۔ 16 کروڑ آبادی والے اس ملک کے تقریبا 10 کروڑ رائے دہندوں نے بھاری اکثریت سے عوامی لیگ کو منتخب کیا ہے ۔ اس مسلم اکثریتی ملک پر 2016 میں دولت اسلامیہ کی جانب سے کئے گئے دہشت گردانہ حملے کے بعد ساری دنیا کی نظریں مرکوز ہوگئی تھیں لیکن وزیراعظم شیخ حسینہ کی حکومت نے ان اسلام پسند دولت اسلامیہ گروپ کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے امن و امان کو یقینی بنایا ۔ بنگلہ دیش موسمیاتی تبدیلی کے خطرات لاحق ہونے کے علاوہ یہاں کی معاشی صورتحال بھی نازک ہے ۔ ایسے میں بنگلہ دیش نے مانیمار کے تارکین وطن کو پناہ دے کر ایک انسانی ہمدردی کا شاندار مظاہرہ کیا تھا ۔ عالمی سطح پر بنگلہ دیش کے اس اقدام کی زبردست ستائش کے درمیان اگر بنگلہ دیشی عوام نے شیخ حسینہ کو دوبارہ منتخب کیا ہے تو انسانی حقوق کے بارے میں بنگلہ دیش پر ہونے والی تنقیدیں زیادہ قابل نوٹ نہیں سمجھی گئی ۔ حکمراں عوامی لیگ پارٹی کو 298 نشستی ایوان میں 288 پر کامیابی ملی ہے لیکن ان انتخابات کا اصل مسئلہ یہ تھا کہ یہاں ایک مضبوط اپوزیشن کے بغیر الیکشن ہوا ہے ۔ اپوزیشن پارٹی کی سربراہ خالدہ ضیا جیل میں ہیں ۔ اس لیے شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش کی سیاست میں اس وقت کسی قسم کا چیلنج نہیں ہے اور آئندہ پانچ سال تک ان کی حکومت کی کارکردگی ہی عوامی ہمدردی کی حقدار ہوگئی ۔ اس بھاری اکثریت کے ساتھ شیخ حسینہ کی کامیابی نے انہیں اپنے ملک کی پالیسیاں آزادانہ طور پر بنانے کا بھی اختیار دیا ہے ۔ خاص کر شیخ حسینہ کی خارجہ پالیسیاں کیسی ہوں گی اس پر عالمی اقوام کی نظریں ہیں ۔ بالخصوص ہندوستان کے لیے بنگلہ دیش کی خارجہ پالیسی اہمیت کی حامل ہوگی ۔ اس میں شک نہیں کہ ہندوستان میں بنگلہ دیش کی داخلی صورتحال کا علم رکھنے والوں نے شیخ حسینہ کی خارجہ پالیسی کو ہندوستان کے لیے بہتر قرار دیا ہے ۔ ہندوستان کے شمال مشرقی ریاستوں میں دہشت گرد سرگرمیوں کو کچلنے میں شیخ حسینہ حکومت نے حکومت ہند کی مدد کی ہے ۔ سابق میں بنگلہ دیش کی باگ ڈور 2001 تا 2006 کے دوران خالدہ ضیا کے ہاتھ میں تھی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی جماعت اسلامی کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ بنگلہ دیش میں اسلامی عسکریت پسندوں کو طاقتور ہونے کا موقع ملا تھا ۔ اب صورتحال تبدیل ہوچکی ہے ۔ 1971 کی جنگ کے دوران بنگلہ دیش کا ساتھ دینے والے ہندوستان کو بنگلہ دیش کے تازہ انتخابی نتائج اطمینان بخش سمجھے جارہے ہیں ۔

عوامی لیگ کی یہ کامیابی ایک ایسے وقت ہوئی جب ہندوستان کو شمال اور مغرب کے علاوہ چین و پاکستان کی خارجہ پالیسیوں سے ابھرنے والے چیلنجس کا سامنا ہے ۔ شیخ حسینہ حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ملک کی داخلی تجارت اور خارجی ٹریڈ پالیسی کو متوازن بنانے ہندوستان اور چین کے ساتھ اس ملک کے تجارتی تعلقات یکساں دکھائی دیتے ہیں ۔ بنگلہ دیش کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے اس غریب ملک کو اپنی پالیسیاں بھی موثر بنانے کی ضرورت ہے ۔ اس کی پالیسیوں میں جو تبدیلیاں آرہی ہیں وہ اچھی شروعات ہے ۔ چین اور ہندوستان نے بنگلہ دیش کے ساتھ تجارتی روابط کو ایک نئی سطح تک لے جانے کی جانب قدم رکھا جائے ۔ تجارت کے معاملوں کے علاوہ ہندوستان کو بنگلہ دیش سے سرحدی مسئلہ پر بھی محتاط تعلقات رکھنے ہیں ۔ بنگلہ دیش کے تارکین وطن پر جو مسائل پیدا ہورہے ہیں اس کو باہمی روابط کی راہ میں حائل ہونے نہیں دینا چاہئے ۔ ہندوستان میں بھی اس سال کے وسط میں لوک سبھا انتخاب ہونے والے ہیں تو ہندوستان کے اندر بھی سیاسی تبدیلیوں کے آثار نمایاں ہوتے ہیں تو ہندوستان کی نئی حکومت اور بنگلہ دیش کی شیخ حسینہ حکومت کے تعلقات کا نیا باب شروع ہونے کی توقع کی جاتی ہے ۔۔