ہوسپٹن : برصغیر میں جہاں پہلے پہل حفظ قرآن کا باقاعدہ نظام قائم ہوا ۔۔۔ عبد المتین منیری ۔ بھٹکل

   

ہندوستان کے مغربی ساحل پر گوا کے جنوب میںقومی شاہراہ نمبر (۱۷) کے ساتھ ساتھ ریاست کرناٹک کے علاقے کینرا کی سرحدمیں جب ہم داخل ہوتے ہیں تومغربی گھاٹ کے جنگلوں اور اس کے آبشاروں سے نکل کر بحر عرب میں گرنے والی ندیو ں اور دریاؤں کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتاہے، ان میں سے کالی اور مرجان ندی سے گذر نے کے بعد ایک لمبی چوڑی ندی آتی ہے جوشراوتی کہلاتی ہے۔یہ ندی گیرسوپا کے مشہور عالم آبشار جوگ فال سے نکل کر کھاڑی پر ناریل کے درختوں سے بھرے پرے چھوٹے چھوٹے جزیرے بناکر سمندر میں مل جاتی ہے۔اس ندی کے دونوں کناروں پر ایک تعلقہ آباد ہے جو ہناور (Honavar) کہلاتا ہے۔عرب جغرافیہ دانوں نے اپنی کتابوں میں اسکے لئے ہنور کا لفظ اورپرتگالی اور انگریز مورخین نے اس کے لئے Honore یا Onore کا لفظ استعمال کیا ہے۔موجودہ ہناور کا قصبہ ندی کے شمالی کنارے پر آباد ہے۔ لیکن جب ہم ندی کو پار کرکے جنوبی کنارے پر پہنچتے ہیں تو شاہراہ سے بائیں جانب کو ایک چھوٹی سڑک جاتی ہے جو کچھ دور ہناور کے ریلوے پل کے جنوبی سرے پر جاکر ختم ہوتی ہے۔یہیں پر ندی کنارے ایک گاؤں آباد ہے جو ہوسپٹن Hosapatna کہلاتا ہے۔ وکٹر ڈیسوزا (۱) نے لکھا ہے کہ یہ کنٹر ی زبان کے دو لفظ ہوسا Hosa ( نیا) اور پٹن Patana (بندرگاہ یا شہر ) سے مل کر بنا ہے، اس کا مطلب ہوا نیا آباد شدہ شہر، اس مصنف اور ایک دوسرے مورخ مولانا خواجہ بہاء الدین اکرمی(۲) کا بیان ہے کہ یہاں سے سو کلومیٹر کی حدود کے اندر بھٹکل اور دوسرے قصبات میں بسنے والے عرب نژاد قبیلے نوائط کے آباء و اجداد یہیں سے ہجرت کرکے ان علاقوں میں منتشر ہوئے تھے ۔ لفظ نوائط کی مورخین نے کئی ایک توجیہات کی ہیں، لیکن برنل ،ڈیمس ، بریجس اور دیسوزا کی یہ توجیہ زیادہ قرین قیاس لگتی ہے کہ یہ سنسکرت یا فارسی کے دو الفاظ نو (Nawa نئے) آید ! آیتا Aayata) آئے ہوئے )سے مرکب ہے(۳) ۔ اس کا مطلب ہو ا نئے شہر میں آباد ہوئے نو وارد لوگ۔

مورخین کے مطابق اہل نوائط حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں،ان کی مدینہ منورہ سے ہوتے ہوئے بغداد اور بصرہ ہوتے ہوئے اس علاقے میں ۷۵۲ھ۔۱۳۵۱ء کے آس پاس ہرمز اور خلیج فارس کے راستے ہجرت ہوئی تھی(۴) ، اسی زمانے میں صلیبی جنگوں اور اندلس پر عیسا ئیوں کے قبضہ کے بعد یورپ کی نشات ثانیہ کا آغاز ہوا تھا ، یورپ میں تہذیب و تمدنی زندگی کے آغاز کے ساتھ ہی ہندوستانی مصالحہ جات ، اناج اور مصنوعات یہاں کی زندگی کا لازمی جزء بن گئیں اور بحر عرب کے دونوں کناروں پر واقع بندرگاہوں کے توسط سے بحری تجارت کو فروغ ملا ، بحر احمر کے دہانے پر واقع﴿ عدن﴾ اور خلیج فارس کے دہانے پر واقع﴿ ہرمز﴾ دو ایسی بندرگاہیں تھیں جن کے راستے ہندوستانی سامان تجارت یورپ کی منڈیوں میں پہنچتا تھا، یہ عہد وسطی میں جہازرانی اور بحری تجارت کا سنہرا دور تھا، ہندوستان کے ساحل پر نووارد نوائط اس تجارت میں مرکزی عنصر کی حیثیت اختیار کر گئے تھے ، کیونکہ یہ جہازرانی کے ساتھ تجارت میں بھی یکتا تھے،چونکہ مقامی ہندو سامان تجارت تیار کرتا تھا ، لیکن بحری سفر اور جہازرانی سے اس کا سروکار نہیں تھا، وہ انہی نوائط کے توسط سے اپنا سامان تجارت عرب اور یورپ کی منڈیوں میں پہنچاتا تھا، اس طرح مقامی لوگوں اور ان نو واردوں کے درمیان ایک دوسرے کے مفادات اور ضرورتیں ملنے کے وجہ سے یہاں پر تجارتی دشمنی اور مخاصمت کے بجائے دوستی اور مفاہمت کی فضا قائم ہوگئی تھی، چونکہ زمانہ جاہلیت سے ان ساحلوں پر عربوں کی آمد ہوتی تھی جہازرانی کے اس عہد عروج میں ان نئے آنے والوں کو دوسروں سے ممیز کرنے کے لئے شاید نوآید (نوائت )اور ان کی نئی آبادی کو﴿ ہوسپٹن﴾ کہا گیا، اور مرور زمانے سے حرف (ت) قرشت (ط) حطی میں بدل گئی۔

ہوسپٹن میں جب آپ داخل ہوں تو وہاں پر لگے ہوئے نئے سائن بورڈ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے یہ کوئی مندروں کا شہر ہو لیکن اس کے اطراف و اکناف کے قصبوں بھٹکل ،کائکینی ،گیرسوپا وغیرہ کے برخلاف جہاں کہ پانچ چھ سو سالہ پرانے جین مندر ،اور محلات نظر آتے ہیں ،یہاں دس بیس سال سے زیادہ پرانا کوئی مندر نظر نہیں آتا ، سب قریبی دور کی تعمیرات ہیں،البتہ جو چیز یہاں پر دیکھنے والے کو فرط حیرت میں ڈال دیتی ہے وہ ہے ایک ایسی جگہ جہاںکوئی بھی مسلم گھر موجود نہ ہو، وہاں پر ایک گھر کے پچھواڑے میں ایستادہ کئی صدیاں ایک ٹوٹا پھوٹا قدیم مسجد کا مینار، یہ اور اس کے قریب مسلم محلہ کے چند کھنڈرات کی وکٹر ڈیسوزا نے ۱۹۵۵ ءمیں جو تصویر اپنی کتاب کی زینت کی ہے،وہ اپنی جگہ پر اب بھی باقی ہیں، بس اب یہ دونوں گھر کے آنگن اور پچھواڑے میں آگئے ہیں۔فسطا ئی تحریکات کے اس دور میں اب چار دیواری پھلانک کر وہاں تک جانا دشوار سا ہوگیا ہے۔

یہی ہوسپٹن مشہور عرب سیاح ابن بطوطہ کی تذکرہ کردہ سلطنت ہنور کا مرکز تھا۔ مورخ ہند حکیم عبد الحی حسنی مرحوم نے نوائط سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ مخدوم علاء الدین علی المھایمی ؒ کے تذکرے میں لکھا ہے کہ ﴿ میرے نزدیک ہندوستان کے ہزار سالہ دور میں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے سوائے حقائق نگاری میں ان کا کوئی نظیر نہیں ، مگر ان کی نسبت یہ معلوم نہیں کہ وہ کس کے شاگرد تھے کس کے مرید تھے،اور مراحل زندگی انہوں نے کیونکر طئے کئے تھے،جو تصنیفات ان کی پیش نظر ہیں ان کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہیں کہ ایسا شخص جس کو ابن عربی ثانی کہنا زیبا ہے،وہ کسمپرسی کی حالت میں ہے، کہیں اور ان کا وجود ہوا ہوتا تو ان کی سیرت پر کتنی کتابیںلکھی جاچکی ہوتیں،اور کس پُر فخر لہجہ میں مؤرخین ان کی داستانوں کو دہراتے (۵) ۔ کچھ یہ صورت حال ہوسپٹن کی باقی ماندہ مسجد کے مینار اور محلے کے کھنڈرات کی بن گئی ہے۔اگر ان کی صفائی کرکے مرمت کی جائے اور جھاڑ جھنکار سے انہیں پاک کیا جائے توشاید یہ ریاست کرناٹک میں اسلامی تاریخ کی سب سے قدیم یادگار بن جائے ۔لیکن جو حالات ہیں انہیں دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے اب ان یادگاروں کے دن گنے چنے ہیں۔

ابن بطوطہ ۷۷۹ھ۔۱۳۷۷ءنے ہنور کا محل وقوع یوں بیان کیا ہے ﴿ جزیرہ انجدیو سے دوسری صبح ہم شہر ہنور پہنچے ، یہ ایک بڑی کھاڑی پر واقع ہے،یہاں بڑی بڑی کشتیاں آکر اترتی ہیں،سمندر شہر سے نصف میل دور ہے،بارش کے موسم میں اس سمندر کی جوش طغیانی بڑھ جاتا ہے، اور چار ماہ تک اس میں مچھلی کے شکار کے علاوہ کوئی سواری کرنا ممکن نہیں(6)

وہ سلطنت ہنور اور اس کے سلطان جمال الدین ہنوری کے کوائف یوں بیان کرتا ہے۔

شہرہنور کے باشندے شافعی مذہب ہیں۔دیندار اور نیک بخت اور بحری طاقت کے لئے مشہور ہیں۔ سنداپور فتح ہونیکے بعد وہ اور کہیں کے نہ رہے تھے اس شہر کے عابدوںمیں سے شیخ محمدناگوری ہیں ۔ا نھوں نے میری دعوت اپنی خانقاہ میں کی ، وہ اپنا کھانا ا ٓپ پکاتے ہیں۔ فقیہ اسماعیل کلام اللہ پڑھاتے ہیں ۔ نہایت خوش اخلاق اور فیاض تھے قاضی شہر نورالدین علی ہے۔ خطیب کا نام مجھے یاد نہیں رہا۔ اس شہر کی عورتیں اور اس پورے ساحل کی عورتیں سلاہواکپڑا نہیں پہنتیں۔ بغیرسلایاکپڑا اوڑھتی ہیں چادر کے ایک آنچل سے تمام بدن لپیٹ لیتی ہیں ، اور دوسرے کو سر اور چھاتی پر ڈال لیتی ہیں (ساڑھی مراد ہے) یہ عورتیں خوبصورت اور باعفت ہوتی ہیں ناک میں سونے کا بلاق پہنتی ہیں۔ ان کی خصوصیت یہ ہے کہ سب کی سب حافظِ قرآن ہوتی ہیں۔ اس شہر میں تیرہ (۱۳) مکتب لڑکیوں کے اور بتیس(۳۲) لڑکوں کے ہیں۔ سوائے اس شہر کے یہ بات میں نے کہیں نہیں دیکھی۔ یہ لوگ فقط بحری تجارت پر گذارہ کرتے ہیں۔ زراعت نہیں کر تے۔ مالابار کے لوگ بھی سلطان جمال الدین کو کچھ نہ کچھ خراج دیتے ہیں کیونکہ اس کے پاس بحری طاقت بہت بڑی ہے اور چھ ہزار پیادہ اور سواربھی رکھتاہے بادشا ہ جمال الدین محمد بن حسن بڑا نیک بخت ہے وہ ایک ہندو راجہ کے ماتحت ہے ، جس کا نام ہریب (ہری ہر) ہے ،سلطان جمال الدین ہمیشہ جماعت کیساتھ نماز پڑھتاہے اس کا دستور ہے کہ صبح ہونے سے پہلے مسجد میں چلاجاتاہے اور صبح ہونے تک تلاوت کرتارہتاہے۔ اول وقت نماز پڑھتاہے پھر شہر کے باہر سوار ہوکر چلاجاتاہے چاشت کے وقت واپس آتاہے پہلے مسجد میں دوگانہ پڑھ کر پھر محل میں جاتاہے ایام بیض کے روزے رکھتاہے۔ جب میں اس کے پاس ٹہراہواتھا تو افطار کے وقت مجھے بلا لیتاتھا۔((7)

پھر ابن بطوطہ نے سلطان جمال الدین کی سنداپور (موجودہ chitakul یا ( Sadasivagarh پر چڑھا ئی کی تفصیلات بیان کی ہیں ، وہ کہتا ہے کہ ﴿سلطان جمال الدین نے (۵۲) جہاز تیار کئے ، اس کا ارادہ سنداپور پر چڑھائی کا تھا،وہاں کے راجہ اور اس کے بیٹے کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے تھے،راجہ کے بیٹے نے سلطان کو لکھاکہ اگر وہ سنداپور فتح کرلے تو وہ مسلمان ہوجائے گا۔اور سلطان اپنی بہن کا نکاح اس کے ساتھ کردے گا(8)

ابن بطوطہ نے اس کے بعد جنگ سنداپور کی تفصیلات بتائی ہیں۔ یہاں سے وہ کالیکٹ روانہ ہوا۔کالیکٹ سے جب وہ سلطان ہنور کی زیارت کی غرض سے واپس لوٹا تو غالبا اس وقت تک سلطنت ہنور کا خاتمہ ہوچکا تھا اور علاقے میں بد امنی پھیل چکی تھی ،وہ بیان کرتا ہے کہ : جب ہم ہنور اور فاکنور(بارکور) کے درمیان ایک جزیرے پر پہنچے تو کافراپنی بارہ کشتیوں کے ساتھ نکل آئے،انہوں نے ہمارے ساتھ سخت لڑائی کی اور ہم پر غالب آگئے ،انہوں نے جو کچھ ہم نے جمع کیا تھا اسے لوٹ لیا،جو کچھ ہیرے جواہرات شاہ سیلان نے ہمیں دئے تھے انہیں چھین لیا،میرے کپڑے اور بزرگوں اوراولیاء اللہ کی دی ہوئی تبرکات بھی لے لیںاور میرے پاس ایک تہ بند کے علاوہ بدن ڈھانکنے کیلئے کچھ نہ بچا۔انہوں نے ہم سے سب کچھ چھین کر ساحل پر ہمیں چھوڑ دیا (9)

وہ مزید لکھتا ہے کہ : میں یہاں سے ہنور پھر سنداپور کو لوٹا ، یہاں میں محرم کے اواخر کو پہنچا ،اور ربیع الآخر کی دوسری تاریخ تک مقیم رہا ،تو یہاں کے کافر راجہ جس کی سلطنت میں ہم گھس آئے تھے اس نے اسے واپس لینے کے لئے پیش قدمی کی،تمام کافر اس کے پاس بھاگ کر جمع ہوگئے،سلطان کی فوج دیہاتوں میں منتشر تھی، وہ ہم سے کٹ گئی ، کفار نے ہمار ا محاصرہ تنگ کیا ، جب حالات اتنے سخت ہوئے تو میں وہاں سے سنداپور کو محصور چھوڑ کر نکل پڑا اور کالیکٹ کو لوٹ آیا (10)

ابن بطوطہ کی وفات 779ھ۔۱۳۷۷ء کو ہوئی ، برنل نے آپ کی اس علاقے میں آمد کی تاریخ قرائن سے ۷۴۳ ھ ۔ ۱۳۴۴ء بتائی ہے(۱۱)۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سنداپور پر حملہ کے ایک سال بعد بکا اول Bukka مہاراجہ سلطنت وجے نگر ۱۳۴۴ء۔۱۳۷۹ء کے دور حکومت میں سنداپور میں سلطان جمال الدین کی فوج دشمن کے گھیرے میں آگئی اور سنداپور اور ہنور دونوں جگہ ان کی فوجی قوت کا خاتمہ ہوا ، وجے نگر کا مورخ رابرٹ سیول رقم طراز ہے کہ گوا کی بندرگاہ سے بلگام تک کا علاقہ اور تلوگھاٹ Tulughat (کینرا) کے ضلعے بکا اول کے قبضے میں آگئے(۱۲)۔

عرب مصنفین میں ابن بطوطہ کے علاوہ ابوالفداء ۷۳۲ھ ۔ ۱۳۳۱ءنے تقویم البلدان(۱۳) میں ہنو ر کا تذکرہ کیا ہے۔ ابو الفداء اور ابن بطوطہ میں دس سال کا فرق ہے، ان سے قدیم کسی اور عرب مورخ نے اس کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہنور کو شہرت اسی دور سے نصیب ہوئی۔

ابن بطوطہ کے بیان میں مندرجہ ذیل امور قابل غور ہیں ۔ان پرتحقیق کی صورت میں ہندوستان کی اسلامی تاریخ پر سے مزید پردے اٹھ سکتے ہیں۔

۱۔ ابن بطوطہ کے زمانے میں ہنور کے باشندے شافعی المذہب تھے، واضح رہے کہ شراوتی ندی کے مغربی کنارے پر ہوسپٹن اور کاسرکوڈ سے ہندوستان میں شافعی مذہب کے ماننے والے مسلمانوں کا سلسلہ شروع ہوکر جنوب مشرقی ساحل پر کایل پٹم جاکر ختم ہوتا ہے۔یہ ہندوستان میں سب سے قدیم نسل کے مسلمان شمار ہوتے ہیں۔ہنور اور اس کے اطراف صرف نوائط برادری کے مسلمان ہی مذہب شافعی کے متبع ہیں،مورخین کا اس پر اتفاق ہے کہ بھٹکل و اطراف کے نوائط سلطنت ہنور کی عرب نژاد مسلمانوں کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں (14)

۲۔ ابن بطوطہ نے آٹھویں صدی میں ہنور میں حفظ قرآن کے رواج اور مکاتب کے نظام کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کا صراحت کے ساتھ یہ بیان کہ سوائے اس شہر کے یہ بات میں نے کہیں نہیں دیکھی ،چونکہ ہمارے علم کی حد تک کسی اور مورخ نے اس سے قبل ہندوستان میں حفظ قرآان کے تعلیم کے نظام کے بارے میں تفصیل نہیں بتائی ہے اور ابن بطوطہ نے تغلقی دور حکومت میں شمال تا جنوب مختلف سرکاری عہدوں پر رہ کر برصغیر کا مشاہد ہ کیا ہے۔ یہ کہنے میں مضائقہ نہیں کہ برصغیر میں حفظ قرآن کا باقاعدہ ا یسا نظام کہ تمام عورتیں بھی حافظ قرآن رہیں پہلے پہل سلطنت ہنور میں قائم ہوا۔یہ سبقت اس سلطنت کے لئے بڑی باعث فخر ہے۔

قریبی دور میں بھٹکل کے ایک نامور رہنما جناب محی الدین منیری رحمۃ اللہ علیہ اپنی تقاریر میں ہمیشہ ابن بطوطہ کے اس بیان کا حوالہ دیتے تھے، انہوں نے بچیوں کے لئے جامعۃ الصالحات کی بنا ڈالِی تو ۱۹۸۰ء میں یہاں پر حفظ قرآان کا شعبہ قائم کیا، اس کی برکت ہے کہ آج بھٹکل میں سینکڑوں حافظات قرآن پائی جاتی ہیں اور ہر دوتین گھر چھوڑ کر خواتین ماہ رمضان المبارک میں تراویح میں پورا قرآن پاک سناتی ہیں، اورچار پانچ مربع کلومیٹر پر محیط شہر بھٹکل کی تمام نوے (۹۰) مساجد میں تراویح میں پورا قرآن سنانے کا اہتمام ہوتا ہے۔ان میں زیادہ تر حافظات کی تعلیم دسویں اور حفاظ کی تعلیم عالمیت سے اوپر ہوتی ہے۔

۳۔ ابن بطوطہ نے سلطنت ہنور کے بحری بیڑے میں فوج کی تعداد چھ ہزار اور جنگی کشتیوں کی تعداد (۵۲) بتائی ہے۔ ہمارے علم کی حد تک یہ برصغیرکی کسی مسلم سلطنت کا پہلا بحری بیڑا ہے۔یہ برصغیر کے مسلمانوں کی بدقسمتی رہی کے یہاں مسلم حکمرانوں نے بحری بیڑے کی طرف توجہ نہیں دی، اسے انہوں نے بہادری کے خلاف سمجھا ،اس سلسلہ میں شاہ گجرات محمود بیگرا کا مشہور جملہ ہے کہ : بحری بیڑوں وغیرہ سے ہمارا کیا کام یہ تو تاجروں کی چیز ہے ۔

سلطنت ہنور صرف ہوسپٹن کانام نہیں تھا ، بلکہ آخر الذکر اس کا مرکز تھا، ایسا لگتا ہے کہ سلطنت ہنور کے خاتمہ کے بعد شراوتی ندی کے شمالی حصہ پر موجودہ ہناور قصبہ واطراف سے مسلمانوں کا انخلاء ہونا شروع ہو ا جو یکم مئی ۱۴۲۷ء

اپنی انتہاء کو پہنچا ،اس تعلق سے وکٹر ڈیسوزا نے بڑی جانسوزی سے قریبی گاؤں کائکینی کے قریب واقع جین بستی میں موجود اس دور کی ایک قدیم پتھر کے ستون کی عبارت خوانی کرکے مہاراجہ دیو پرتاب ۱۴۱۹ء تا ۱۴۴۴ءکے دور حکومت میں اس کے گورنر مہا پردھانا تمنا اوڈیا Maha pardhana Tmanna Adya سے اختلافات کی بنیاد پر مسلمان تاجروں کے سردار عمر مرکلا اپنے لوگوں کے ساتھ شراوتی کے جنوبی ساحل پر منتقل ہونے اور پھر یہاں پر بھی خونریزی اور جنگ کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ تاریخی قرائن سے ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ سلطنت ہنور کے زوال کے فورا بعد یہاں سے مسلمانوں کا انخلاء ہوگیا ہو،کیونکہ اس واقعہ کے ایک سو سال بعد پرتگالی نامہ نویس جاؤ دی بیروس ۱۵۵۳ءمیں لکھتا ہے کہ

ہناور کی یہ بندرگاہ اور بھٹکل کی بندرگاہ جو کہ سات فرسخ کی دوری پرتھی دوسرے ساحلی علاقوں کی طرح وجے نگر کے تابع تھی راجہ ہناور اس کا باجگذار تھا ، چالیس سال کے دوران ان دونوں بندرگاہوں کی پورے ساحل پر بڑی دھوم تھی ، اس کی وجہ صرف یہ نہیں تھی کہ یہاں کی زمین زرخیز تھی ، اور بڑی مقدار میں یہاں غلہ ملتا تھا ،اور تمام جگہوں کے لئے یہاں سامان لادا جاتا تھا ، بلکہ ان کی اہمیت اس لئے بھی تھی کہ سلطنت وجے نگر کی جملہ در آمدات اور برآمدات انہی بندرگاہوں سے ہوتی تھی ، یہاں سے اسے نہ صر ف بہت سا لگان ملتا تھا بلکہ اس کی خاص وجہ عرب و فارس سے یہاں در آمد ہونے والے گھوڑے بھی تھے، جن کی وجے نگر کی فوج میں بڑی اہمیت تھی ، کیونکہ دکن کی مسلم سلطنت سے اس کی مسلسل جنگ جاری تھی ، اس نے شمال کی جانب سے وجے نگر کا گھیرا تنگ کر رکھا تھا ، اس کے بہت سارے علاقوں پر اس نے قبضہ کر لیا تھا ، جنگی مدافعت میں یہ گھوڑے بنیادی قوت فراہم کرتے تھے،ان بندرگاہوں کی زرخیزی اور یہاں کی تجارت کی وجہ سے یہاں پر Naiteas (نائطی) کہلائے جانے والے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آباد تھی ، یہ گھوڑے خرید کر دکن کے مسلمانوں کو فروخت کیا کرتے تھے، اس وجہ سے راجہ وجے نگر کو اس وقت بڑا نقصان اٹھانا پڑا جب کہ دکن کے ساتھ گھڑسوار فوج کی جنگ چھڑ گئی، یہ خسارہ اس وقت بہت بڑھ گیا جب کہ گھوڑوں کی مانگ کی وجہ سے گھوڑوں کی قیمت دگنی ہوگئی۔ جب ریاست کو اس سے تکلیف محسوس ہونے لگی تو وجے نگر نے ہوناور کے اپنے باجگذار راجہ کو حکم دیا کہ وہ جتنے زیادہ ممکن ہو یہاں کے مسلمانوں کو قتل کرے، تا کہ یہ ڈر کے مارے ملک چھوڑ کر بھاگ جائیں، پھر مسلمانوں کے سال ۹۱۷ھ جو کہ ۱۴۷۹ء بنتا ہے ہوناور اور بھٹکل کے تمام علاقوں میں سازش کے الزام میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوا ۔جس میں دس ہزار مسلمان مارے گئے، جو بچ گئے انہوں نے جتھے بنائے اور یہاں سے نکل کر زوڈی Tissuari جزیرے میں بود و باش اختیار کی ، یہیں سے شہر گو ا کی بنیاد پڑی۔ہوناور کے باجگذار کی جانب سے جو بد سلوکی ان مسلمانوں کے ساتھ کی گئی تھی ، اس کے نتیجہ میں ہوناور کے ہندؤوں سے انہیں نفرت سی ہوگئی، انہوں نے گوا کو آباد کرنے اور یہاں کی تجارت کو دلکش بنانے ، خاص طور سے گھوڑوں کی تجارت کو فروغ دینے ، انہیںبآسانی سلطنت دکن کو روانہ کرنے کے انتظامات کے تعلق سے بڑی پھرتی سے اپنا کام پورا کیا ، یہ کام انہیں اس وجہ سے بھی آسان ہوا کہ یہ سامان تجارت جہازوں پر چڑھانے والے جہازراں مسلمان ہی ہوا کرتے تھے ،انہیں بھٹکل اور ہوناور میں جو تکلیف دی گئی تھی اس کی وجہ سے انہوں نے فیصلہ کردیا تھا کہ ہندوؤں کے بالمقابل وہ اپنے ہم مذہب مسلمانوں کا ساتھ دیں گے ، اس کی وجہ سے ہوناور اور بھٹکل کی بندرگاہوں کا نقصان ہونے لگا (۱۵)۔

اس سلسلے میں سلطنت وجے نگر کے مورخ روبرٹ سیول نے یوں لکھا ہے۔

۱۳ ذی قعدہ ۸۶۷ھ ۔ ۳۰ جولائی ۱۴۹۳ء محمد شاہ بہمنی بادشاہ بنا ۔ ۱۴۶۹ء کے أواسط میں اواسط میں جب کہ راج شیکھر ا یا ویرپکشا اول وجے نگر کا گدی نشین تھا ، محمد شاہ بہمنی کے وزیر محمود گاواں نے مغرب کی طرف کوچ کیا اور واضح طور پر ایک کامیا ب مہم چلاکر گوا پر حملہ کردیا، پھر اس کے بعد برو بحر دونوں راستوں سے وجے نگر کے رایا Raya کے مورچوں پر حملہ بول دیا ، اس حملہ میں اسے فتح نصیب ہوئی اور یہاں کے تمام علاقہ جات پر اس کا قبضہ ہوگیا۔

بیروس کے بقول یہ غالبا ۱۴۶۹ء میں ہونے والے مسلمانوں کے وحشیانہ قتل عام کا بدلہ تھا ، اس زمانے میں ساحلی علاقہ کی جملہ تجارت مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھی، یہ مسلمان بڑی تعداد میں گھوڑے در آمدکرتے تھے ، یہ گھوڑے بنیادی طور پر سلطنت دکن اور وجے نگر کی دو مد مقابل کثیر تعداد فوج میں استعمال ہوتے تھے، ہندو راجہ کی فوج کا دارو مدار انہی گھوڑوں کی درآمد پر تھا۔ ۔۔ (اس قتل عام کے بعد) بچ کرنکلنے والوں نے گوا میں پناہ لی، یہیں سے اس شہر کی بنیاد پڑی جسے ہندستان میں پرتگالیوں نے اپنی راجدھانی بنایا۔۔۔ پرچیس Purcheas کا بیان ہے کہ یہ قتل عام ۱۴۷۹ء میں ہوا تھا (۱۶) ۔

ہنور اور بھٹکل میںقتل عام کے بعد گوا کی تاسیس اور اس کے نتیجہ میں وجے نگر کا جو تجارتی نقصان ہونے لگا اس کے بعدوجے نگر کی مزید کاروائی نے ہنور سے مسلمانوں کو مزید دوری کے جو اسباب پیدا ہوئے اس سلسلے میں بیروس مزید لکھتا ہے کہ : راجہ وجے نگر نے اس حکم کے ساتھ کہ گھوڑے لانے اور سامان تجارت لانے والے جہازوں کو ان دو نوں بندرگاہوں پر لانے کے لئے مجبور کیا جائے،انہیں گوا نہ جانے دیا جائے،اس نے راجہ ہناور کے پاس اپنے چار کپتان ایک بحری بیڑے کے ساتھ روانہ کئے، تاکہ یہ تمام جہازوں کو اپنی بندرگاہوں پر لانے کے لئے مجبور کرے، اور ان کی جانب سے مدافعت کی صورت میں قزاقی اور لوٹ مار سمیت ان جہازوں کو جو نقصان پہنچایا جاسکے پہنچائے،اس بحری بیڑے کا تیمیا Timmayya بڑا کپتان تھا ، اس نے ساحل پر آباد مسلمانوں کوجتنا نقصان پہنچا سکا پہنچایا ، اس رتبہ پر اسکے پہنچنے سے پہلے راجہ ہناور کے دوسرے کپتان یہاں ہوا کرتے تھے،اس وجہ سے راجہ ہناور اور حکومت گوا (عادل شاہی) میں ہمیشہ جنگ جاری رہتی تھی، اور سینتاکورا Sintacora (Sadashivgarh) کا قلعہ دشمن کی سرحد کا کام دیتا تھا،مسلمانوں نے راجہ ہناور کے خلاف بہت زیادہ کامیابیاں حاصل کیں ، خاص طور پر Sabia (یوسف عادل خان) کے گوا کا حاکم بننے کے بعد تور اجہ ہناور جو کہ ندی کے دہانے پر رہائش پذیر تھا بھاگ کر ندی کے اندر ونی علاقے میں منتقل ہوگیا(۱۷)۔

قصبہ ہوناور اللہ کے نام لیواؤں سے خالی نہیں ہوا،قریبی دور میں آئے ہوئے توحید کے پرستار اب بھی وہاں موجود ہیں، لیکن ہوسپٹن جسے اس تاج کا ہیرا کہنا چاہئے اب سونا پڑا ہے، یہ بستی جہاں برصغیر کا کلام اللہ حفظ کرنے کاقدیم ترین باقاعدہ نظام قائم کیا گیا تھامدت ہوئی اس کی فضاؤں میں تکبیر کی صدائیں گم ہوگئی ہیں۔ بس بوسیدہ مینار کا ایک ڈھانچہ ہے جو یاد دلاتا رہتا ہے کہ میر عرب کا کارواں کبھی یہا ں سے گذرا تھا،یہاں بھی کبھی قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند ہوتی تھیں،لیکن مرور زمانے نے قومی حافظے سے اس کا نام فرامو ش کردیا، یہاں کے اڑوس پڑوس میں اب جو ماحول بن گیا ہے اس سے اب ایسا نہیں لگتا کہ توحید کی وہ بہاریں یہاں دوبارہ لوٹائی جاسکیں گی،لیکن ایسا تو ہوسکتا ہے کہ قومی حافظہ میں اسے محفوظ رکھنے کا انتظام ہو تاکہ آئندہ نسلیں اس کی ضو پاشی سے منور رہ سکیں۔