یوم عید

   

آج عید الفطر ہے ۔ ایک ماہ تک روزوں اور عبادات کے بعد اللہ تبارد و تعالی کی جانب سے انعام کے طور پر ہم کو عید الفطر عطا کی گئی ہے ۔ ماہ رمضان المبارک میں ہم نے پوری کوشش کی کہ خشوع و خضوع کے ساتھ روزوں اور نمازوں کا اہتمام کریں۔ ہم نے دیگر عبادات و اذکار کا بھی اہتمام کرنے کی کوشش کی ہے ۔ غریبوں کی داد رسی کی ہدایت پر بھی عمل کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اہل ثروت افراد نے زکواۃ بھی ادا کی ہے ۔ سارا مہینہ ایک روح پرور ماحول ہمارے ارد گرد دیکھنے کو ملا ہے ۔ حالانکہ کوئی بھی یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ اس نے رمضان کا حق اسی طرح ادا کیا ہے جس طرح اسے ادا کرنے کا حق ہے لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ہم نے اپنے طور پر حتی المقدور کوشش کی ہے کہ رمضان کی رحمتوں ‘ برکتوں اورعظمتوں سے خود کو مستفید کرسکیں۔ ایک ماہ تک سحر ‘ افطار ‘ تراویح اور دیگر عبادات نے ہمارے دلوں اور قلوب کو منور کردیا تھا ۔ ہم میں ایک دوسرے سے ہمدردی کا جذبہ بھی پیدا ہونے لگا تھا ۔ ہم نے اللہ تبارک و تعالی کے احکام بجالانے کی حتی المقدور کوشش کی ہے ۔ اب جبکہ ہم عید الفطر منا رہے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے آپ سے یہ عہد کریں کہ جو سلسلہ ہم نے ماہ رمضان المبارک میںہم نے شروع کیا تھا اس کو آئندہ رمضان تک بھی جاری و ساری رکھیں۔ ہم کو آج یہ عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ سے اپنے تعلق کو لگاتار جوڑے رکھیں۔ احکام الہی پر عمل پیرائی کی کوشش کی جاتی رہے ۔ اللہ تبارک و تعالی کی نافرمانیوں سے خود کو اور اپنے اہل و عیال کو بھی بچانے کی ضرورت ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ اس مقدس ماہ میں بھی ہم سے نافرمانیاں ہوئی ہیں اور ہم نے اس ماہ مقدس کا وہ احترام نہیں کیا جو کرنا چاہئے تھا ۔ ہمیں یہ عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی کوتاہیوںکو دور کرتے ہوئے خود کو پوری طرح سے اللہ تبارک و تعالی کے احکام کی تعمیل کیلئے وقف کردیں گے ۔ ہم سنت نبوی ؐ سے اپنے آپ کو جوڑے رکھنے کی کوشش کریں گے ۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں ایک عافیت والی اور کامیاب زندگی دے سکتا ہے اور ہماری آخرت کو سنوار سکتا ہے ۔
ماہ رمضان نے ہمیں جو درس دیا ہے ہمیں اس پر ساری زندگی عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔ مساجد کی جو رونقیں ماہ رمضان میں دیکھنے کو ملی ہیں اس نے دلوں کو منور کردیا ہے ۔ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ مساجد کی یہ رونقیں ماند نہ پڑجائیں۔ بھلے ہی ہم سے ماہ رمضان رخصت ہوا ہے لیکن نمازوں کی پابندی ہمیں آخری سانس تک کرنے کی ضرورت ہے ۔ نمازوںسے دوری ہمیںساری دنیا میںذلیل و رسواء کرنے کا موجب بن رہی ہے ۔ نمازوں کے اہتمام کے ذریعہ ملت اسلامیہ کے اتحاد و اتفاق کا ثبوت ملتا ہے ۔ یہ وہ منظر ہے جو ساری دنیا کو ایک ایسا پیام دیتا ہے جو اپنے آپ میںمنفرد ہے ۔ اس کے ذریعہ ملت اسلامیہ کے استحکام کا بھی اندازہ کیا جاتا ہے ۔ جس طرح ہم نے ماہ رمضان المبارک میں مختلف اذکار و عبادات کا اہتمام کیا تھا ہمیںکوشش کرنی چاہئے کہ ساری زندگی ان کا سلسلہ جاری رہے ۔ ماہ رمضان میں قرآن پاک کی تلاوت کا اہتمام بطور خاص کیا جاتا رہا ہے ۔ ہمیں قرآن سے اپنے تعلق کو ماہ رمضان تک محدود نہیں رکھنا چاہئے ۔ یہی ہمارے لئے دستور حیات ہے ۔ ہمیں قرآن پاک سے اپنے تعلق کو تاحیات مضبوط و مستحکم بنانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ قرآن سے درس لیتے ہوئے اپنی زندگیوں کو سنوارا جاسکتا ہے ۔ ہمیں یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ اسلامی تعلیمات اور عبادات و قرآن سے دوری نے ہمیں آج کہیں کا نہیں رکھا ہے ۔ ہم زندگی کے مسائل و پریشانیوں کا شکار ہوئے انتشار والی زندگی گذارنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
اس عید پر ہمیں اپنے رشتہ داروں ‘ اہل و عیال ‘ دوست احباب اور پڑوس کا خاص طورپر خیال رکھنے کی ضرورت ہے ۔ وہ عید ‘ عید نہیں کہی جاسکتی جو اپنوں کو محروم رکھتے ہوئے منائی جائے ۔ عید کی خوشیاں بانٹنے سے اپنی خوشیاں بھی دوبالا ہوسکتی ہیں۔ ملت کے ضرورت مندوں اور غریب رشتہ داروں اور دوست احباب اور پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک ہماری ذمہ داری ہے ۔ ہم اگر رمضان والی زندگی سال بھر اختیار کرتے ہیں تو ہم سرخرو ہوسکتے ہیں۔ ہمیں عید کے موقع پر یہ عہد اور عزم کرنے کی ضرورت ہے کہ ماہ رمضان نے ہمیں جو درس دیا ہے اس کو اپنی زندگی کے ہر لمحہ میں اختیار کریں گے اور اپنی کوتاہیوں کو دور کریں گے ۔