یو پی، کانگریس ۔ ایس پی متحد

   

ملک کی سب سے بڑی اور سیاسی اعتبار سے انتہائی اہمیت کی حامل ریاست اترپردیش میں کانگریس اور سماجوادی پارٹی کے مابین نشستوںکی تقسیم پر اتفاق راے ہوگیا ہے ۔دونوں جماعتوں کے مابین نشستوں کی تقسیم کے مسئلہ پر مداکرات کا سلسلہ چل رہا تھا تاہم آج ان دونوں ہی جماعتوں کے قائدین ایک نتیجہ پر پہونچ چکے ہیںاور انہوں نے اسے ایک اچھی ابتداء قرار دیا ہے ۔ فارمولے کے مطابق سماجوادی پارٹی 62 نشستوں پر مقابلہ کرے گی جبکہ کانگریس کیلئے 17 نشستیں چھوڑی جائیں گی ۔ ایک نشست چندر شیکھر آزاد کیلئے چھوڑدی گئی ہے ۔ اس طرح دونوں ہی جماعتوں کے مابین گذشتہ چند ہفتوں سے جو مذاکرات جاری تھے وہ اب با نتیجہ ہوگئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ کانگریس قائدین سونیا گاندھی اور پرینکا گاندھی نے نشستوں کی تقسیم کو یقینی بنانے میںاہم رول ادا کیا تیھا ۔ اترپردیش کانگریس کے کچھ قائدین چاہتے تھے کہ زیادہ نشستوں کیلئے اصرار کیا جائے لیکن ریاست میںپارٹی کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے کانگریس کی سابق صدر سونیا گاندھی نے اس مطالبہ پر اصرار نہیں کیا ۔ انہوں نے اپنی پارٹی کے قائدین پر واضح کردیا ہے کہ وہ جتنی نشستوں کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ ناواجبی ہے ۔ اس کے علاوہ بھی اگر دونوں جماعتوںمیںاتحاد نہ ہوپاتا تو یہ دونوں ہی کیلئے اچھی بات نہیں ہوتی اور اس کے نتیجہ میں انڈیا اتحاد کا استحکام متاثرہوجاتا ۔ انڈیا اتحاد کو پہلے ہی نتیش کمار کی دوری سے مسئلہ پیش آئی ہے حالانکہ سیاسی صورتحال کو اب بھی بہار میںانڈیا اتحاد کے موافق کرنے کے امکانات برقرار ہیں۔ اسی طرح مغربی بنگال میں ممتابنرجی کو بھی منانے کیلئے کانگریس قائدین سونیا گاندھی اور پرینکا گاندھی کو حرکت میںآنے کی ضرورت ہے ۔ اترپردیش کی جو سیاسی اہمیت ہے اس کو دیکھتے ہوئے ان دونوں جماعتوں کا اتحاد ضروری تھا ۔ اس کے ذریعہ انڈیا اتحاد میںشامل دوسری جماعتوں کو بھی پیام دیا گیا ہے کہ سبھی کو ایک جٹ ہو کر اور متحد ہو کر بی جے پی کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسے لگاتار تیسری معیاد کیلئے مرکز میںاقتدار حاصل کرنے سے روکا جاسکے ۔
اترپردیش میں کانگریس اور سماجوادی پارٹی کے اتحاد سے ریاست میں بی جے پی کی پیشرفت کو روکا جاسکتا ہے ۔ گذشتہ انتخابات میں جس طرح سے بی جے پی نے 72 نشستوںپر کامیابی حاصل کی تھی اس تعداد کو اس بار کم کیا جاسکتا ہے ۔ مرکز میںاگر بی جے پی کو لگاتار تیسری معیاد کیلئے اقتدار حاصل کرنے سے روکنا ہے تو ضروری ہے کہ اس کی نشستوں کی تعداد کو اترپردیش میں کم کیا جائے ۔ اترپردیش میں کم از کم دو تا تین درجن نشستوں کا بی جے پی کو نقصان اگر ہوتا ہے تو اس سے اس کی دہلی کی سمت پیشرفت کو روکا جاسکتا ہے ۔ این ڈی اے اتحاد کو بہار میں بھی نقصان کے آثار واضح دکھائی دے رہے ہیں۔ بی جے پی نے اسی صورتحال کودیکھتے ہوئے حالانکہ نتیش کمار کو ایک بار پھر اپنے کیمپ میںشامل کرلیا ہے لیکن اس فیصلے سے خود بی جے پی اور نتیش کمار دونوں ہی کو نقصان ہونے والا ہے ۔ بہار میں راشٹریہ جنتادل اور کانگریس کو اس کا فائدہ مل سکتا ہے بشرطیکہ یہ جماعتیں بھی نشستوں کی تقسیم پر اختلافات کا شکار ہونے کی بجائے ایک منظم منصوبے کے تحت جلد فیصلہ کرلیں اور جامع حکمت عملی تیار کرتے ہوئے عوام سے رجوع ہوں۔ نتیش کمار کی انحراف کی عادت اور بی جے پی کی سیاسی چال بازیوں کو عوام میں پیش کرتے ہوئے شعور بیدار کیا جاسکتا ہے ۔ بی جے پی نہیںچاہتی تھی کہ اترپردیش میںایس پی ۔ کانگریس اتحاد ہوجائے کیونکہ اسے اترپردیش جیسی ریاست میں بھی سیاسی نقصان کے اندیشے لاحق ہیں حالانکہ وہ ان کا اعتراف نہیں کر رہی ہے ۔
یو پی میں کامیابی کے ذریعہ ہی دو مرتبہ بی جے پی نے مرکز میں اقتدار پر قبضہ کیا تھا اور اسے یقین ہے کہ تیسری معیاد کیلئے کامیابی اس کیلئے آسان نہیں ہوگی ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مختلف جماعتوں اور قائدین کو اپنی صفو ں میں شامل کرنے کی مہم میںجٹ گئی ہے ۔ اس صورتحال میں علاقائی جماعتوں کا کانگریس کے ساتھ اتحاد اور کانگریس کا فراخدلانہ رویہ ہی اہمیت کا حامل ہوگا ۔ بی جے پی کے منصوبوںکو اگر ناکام بنانا ہے تو جس طرح اترپردیش میں آج مفاہمت کی گئی ہے اسی طرح دوسری ریاستوں میں بھی مفاہمت اور نشستوں کی تقسیم کا عمل جلد مکمل کیا جانا چاہئے تاکہ صورتحال واضح ہوجائے اور کسی کو بھی شبہات پیدا کرنے کا موقع نہ مل پائے ۔