یکساں سول کوڈ نہیں مساوات ضروری

   

ٹی ایم کرشنا
گزشتہ چند ماہ سے ہمارے ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کے مطالبہ کا ایسا لگتا ہے کہ احیاء کیا گیا ہے اور خود وزیر اعظم نریندر مودی یو سی سی کے نفاذ کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں جبکہ اس معاملہ میں سنگھ پریوار اور اس کی ذیلی تنظیمیں بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے لیکن ہمیں یہ بات پوری طرح واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ بی جے پی اور اس کی سرپرست آر ایس ایس اور اس کی سرپرست کے تحت کام کرنے والے دوسری تنظیموں بشمول وشوا ہندو پریشد کا مطالبہ نہ تو دستور کے اصول و ہدایات پر مبنی ہے اور نہ ہی اس مطالبہ کے پیچھے ان کے کوئی نیک ارادے ہیں (باالفاظ دیگر بی جے پی آر ایس ایس وشواہندو پریشد اور ان کے قبیل کی دوسری تنظیموں کا یہ مطالبہ بدنیتی پر مبنی ہے) جس طرح تحفظ گاؤ کے نام پر صرف مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا اور اپنا سیاسی الو (سیاسی مقاصد کی تکمیل کی گئی) سیدھا کیا گیا۔ اس طرح یو سی سی کو بھی بی جے پی اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کرے گی آپ دیکھئے بی جے پی اور اس کی حامی تنظیمیں اور جماعتیں وقفہ وقفہ سے یونیفارم سول کوڈ کا موضوع چھیڑ رہی ہیں اسے ایک بہت بڑے مسئلہ کے طور پر پیش کررہی ہیں۔ مثال کے طور پر گاؤ رکھشکوں نے مسلمانوں اور دلتوں پر قاتلانہ حملے کئے۔ ان کے قتل کئے جبکہ ریاست نے ہندوؤں کو ’’لو جہاد‘‘ سے بچانے کے بہانہ تبدیلی مذہب قوانین بنائے اور منظور کروائے اور اس طرح خوف کا ماحول پیدا کرنے کے نتیجہ میں مسلمانوں پر حملوں کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔ سپریم کورٹ فیصلہ کے بعد حکومت نے ایک آرڈیننس منظور کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پارلیمنٹ نے طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی اور جرم قرار دیتے ہوئے ایک بل منظور کیا۔ لیکن اس بل کے ذریعہ بھی حکومت نے اپنا اصلی رنگ دکھا دیا۔ اس نے طلاق ثلاثہ کو ایک جرم اور مجرمانہ فعل قرار دیا یعنی اگر کوئی مسلمان اپنی بیوی کو تین طلاق دیتا ہے تو وہ جرم کا مرتکب ہوگا لیکن کوئی ہندو اپنی بیوی کو بے یار و مددگار چھوڑ دیتا ہے تو اسے جیل نہیں ہوسکتی۔ اس کا یہ عمل جرم قرار نہیں پاتا۔
اگر ہم بی جے پی قائدین کے بیانات کا جائزہ لیں تو وزیر اعظم کے تحت کام کرنے والے بے شمار ایسے سیاستداں ہیں جن کے بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ یہ حکومت کسی بھی طرح کے مساوات میں دلچسپی نہیں رکھتی بلکہ حکومت اپنے ہر قدم سے اپنے وفاداروں، حامیوں اور ہمدردوں کو یہ پیام دیتی ہے کہ وہ مسلمانوں کو ان کے مقام پر رکھے گی۔ عدالت عظمیٰ میں ظاہر ہونے والا تضاد بھی واضح ہے کیونکہ حکومت اس بات پر زور دیتی ہے کہ ملک کے تمام شہریوں کے مساویانہ حقوق کو یقینی بنانے کے لئے یکساں سول کوڈ کا نفاذ ضروری ہے اور ساتھ ہی ملک کی سب سے بڑی اسی عدالت میں ہم جنس پرستوں کی شادیوں کی مخالفت کرتی ہے۔ آپ کو بتادیں کہ سال 2017 میں حقوق انسانی کے جہدکاروں کے ایک گروپ نے جس میں بیزواڑہ ولسن، ممتاز قانون داں دیشنت اداکارہ گل پناگ، ماہر تعلیم و مصنف مکل کیساون، مصنف نلنجن رائے، مشہور و معروف اسکالر ایس عرفان جیب اور میجر جنرل ایس و مبیٹکر (ریٹائرڈ) شامل تھے۔ اس وقت کے صدر لاکمپشن بی ایس چوہان کو ایک تجویز پیش کی تھی۔ مسٹر چوہان کو یکساں سول کوڈ کا جائزہ لینے کے لئے مقرر کیا گیا تھا۔ اس گروپ نے مختلف جنس اور جنسی رجحانات کے حامل افراد کے درمیان شادیوں کو قانونی حیثیت دینے کی تجویز پیش کی۔ اس کے علاوہ گود لینے یکساں طریقہ کار اختیار کرنے کے بھی تجاویز پیش کئے۔ یکساں سول کوڈ پر بحث کو جس طرح ترتیب دیا گیا ہے اس میں ایک گہرا فلسفہ ہے ’’یونیفارم‘‘ جیسے لفظ کا بار بار استعمال میں جو چھپے ہوئے معنی ہیں وہ یہ ہے کہ اس میں فی الوقت نقائص ہیں خرابی ہے اور جس بات پر بہت زور دیا جارہا ہے۔ وہ ’’یکسانیت‘‘ ہے اور یکسانیت کے بارے میں دعوی کیا جارہا ہے کہ اس کے نفاذ سے ڈسپلن لایا جائے گا۔ اس ضمن میں یہ دلیل دی جارہی ہے کہ یکسانیت مساوات کو یقینی بنائے گی۔ ہمارے لاشعوری ذہن میں یکسانیت برابری (مساوات) کے طور پر درج ہوتی ہے لیکن ہم بھول جاتے ہیں کہ یکسانیت کا مطلب صرف یکساں قوانین سب پر نافذ ہوتا ہے۔ اور احترام و وقار کو محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔ قانون اس قدر پیچیدہ ہیں کہ معاشرہ کے ستائے ہوئے لوگوں کی ان تک رسائی مشکل ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ایک چھوٹے سے شہر کا ایک فرد آسانی سے ڈیتھ سرٹیفکیٹ حاصل کرنے سے بھی قاصر ہے اور یہاں ہم اپنے سول کوڈ میں پچیدہ تبدیلیوں کی بات کررہے ہیں۔ ملک میں دیکھا جائے تو ایسا ماحول پیدا کردیا گیا کہ ترقی پسند قوانین بھی سماجی ارتقاء، فرقہ واریت کے فقدان کے باعث ضائع کردیئے جائیں گے یا انہیں اکثریت کے ذریعہ ہتھیار بنایا جائے گا۔ سیاسی جماعتیں شہریوں کے استحصال کے لئے مذہب، ذات پات اور جنس کا استعمال کرتی ہیں۔ عدالت امتیازی اصولوں کو برقرار رکھتی ہیں اور پولیس، بااثر افراد کے ساتھ ملی رہتی ہے۔ ایسی صورتحال میں یکساں سول کوڈ چاہے کتنا ہی ترقی پسند کیوں نہ ہو نقصاندہ ہوسکتا ہے اور اقلیتوں کو اس سے تشدد کا سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہوگا۔