یہ زباں کسی نے خریدلی یہ قلم کسی کا غلام ہے

,

   

30 سال حکومت کا خواب … مخالف آوازیں پسند نہیں
عدلیہ اور صحافت نشانہ پر … ایمرجنسی سے بدتر صورتحال

رشیدالدین
سیاستدانوں کی تقاریر میں جب کبھی ایمرجنسی کا تذکرہ ہوتا تو نئی نسل کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا کہ آخر ایمرجنسی کس چڑیا کا نام ہے۔ اندرا گاندھی کی جانب سے ایمرجنسی کے نفاذ کے 45 سال گزرگئے اور آج کی نسل نے تو صرف ایمرجنسی کے بارے میں سنا ہے۔ نوجوانوں کو یہ خیال آتا کہ آخر اندرا گاندھی نے ایسا کیا کردیا تھا کہ آج تک بھی انہیں نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ ایک پروفیسر سے جب طلبہ نے ایمرجنسی کے بارے میں سوال کیا تو ان کا مختصر جواب تھا کہ ایمرجنسی کو دیکھنا چاہتے ہو تو ملک کے حالات کو دیکھ لو ۔ نریندر مودی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت نے ملک میں جو ماحول پیدا کیا ہے، وہ ایمرجنسی سے بدتر ہے۔ ہر مخالف آواز کو کچلنے کا نام ایمرجنسی تھا لیکن آج تو مخالف آواز چھوڑیئے ، دستوری اور جمہوری ادارے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ عدلیہ ، مقننہ اور عاملہ کو جمہوریت کے ستون کہا جاتا ہے اور صحافت کو چوتھے ستون کا درجہ دیا گیا لیکن آج کوئی بھی ستون محفوظ نہیں ہے۔ بی جے پی نے دستوری اورجمہوری اداروں پر اثر انداز ہونے کی کامیاب کوشش کی ہے جو کوئی اثر قبول کرنے سے انکار کرے ، اسے انجام کیلئے تیار رہنا پڑتا ہے ۔ جمہوریت میں جب کبھی عوامی حقوق کو خطرہ لاحق ہوا تو کبھی عدلیہ تو کبھی میڈیا نے اپنا رول ادا کیا لیکن آج عدلیہ اور میڈیا پر بھی خوف کا ماحول ہے ۔ صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ حکومت کا ساتھ دو یا پھر انتقامی کارروائی کا سامنا کرو۔ مقننہ اور عاملہ تو حکومت کے کنٹرول میں ہیں لیکن عدلیہ اور میڈیا کی آزادی بھی سلب کرلی گئی۔ ڈکٹیٹرشپ اور آمریت کو ایمرجنسی کہا جاتا ہے لیکن آج کی صورتحال کیلئے لفظ ایمرجنسی چھوٹا پڑ جائے گا۔ آج کے حالات دیکھ کر ایمرجنسی بھی شرما جائے گی۔ بی جے پی اور آر ایس ایس نے ملک کو ہندو راشٹرا میں تبدیلی کا جو منصوبہ تیار کیا ہے ، اس پر عمل آوری کیلئے ہر شعبہ کو زعفرانی رنگ میں رنگنے کا کام تیزی سے جاری ہے۔ عاملہ کی طرف سے ہندوتوا ذہنیت کے عہدیداروں کو اہم ذمہ داریاں دے کر ایجنڈہ کی تکمیل کی جارہی ہے ۔ عدلیہ جس کی بالادستی ، آزادی اور غیر جانبداری کے کبھی چرچے رہا کرتے تھے ، آج وہی عدلیہ خوف اور دباؤ کے عالم میں ہے۔ آزادانہ اور سچائی کے حق میں فیصلوں کا دور ختم ہوچکا ہے۔ ہر دور میں جب کبھی بھی عوامی حقوق اور جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوا ، عدلیہ نے مداخلت کی۔ عوامی منتخب حکومتوں کو زوال سے دوچار کرنے کے کئی معاملات میں عدلیہ کی مداخلت سے معزول حکومتیں بحال ہوئیں۔ 2014 ء کے بعد سے بی جے پی نے مختلف ریاستوں میں 9 منتخب حکومتوں کو بیدخل کردیا لیکن کسی ایک معاملہ میں عدالت نے مداخلت کرتے ہوئے دستور اور جمہوریت کو بچانے کی کوشش نہیں کی۔ ایک زمانہ وہ تھا جب سیاسی انحراف کیلئے دولت اور عہدہ کا لالچ دیا جاتا تھا لیکن بی جے پی نے لالچ کی جگہ خوف کا فارمولہ تیار کیا ہے ۔ دولت اور عہدہ کی جگہ انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ED) اور سی بی آئی نے لے لی ہے۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کا خوف دلاکر مخالفین کی آواز کو کچلنے کا کام تیزی سے جاری ہے۔ مخالفین کے خلاف تحقیقاتی ایجنسیوں کا استعمال شائد ہی ملک کی تاریخ میں کبھی اس قدر شدت سے کیا گیا ہو ۔ مقدمات درج کرنے کیلئے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں۔ سیاسی حریفوں اور آزادانہ میڈیا گھرانوں کے خلاف دھاوے روز کا معمول بن چکے ہیں۔ انفورسمنٹ ڈئرکٹوریٹ کی نوٹس دراصل راہِ راست پر آنے کی وارننگ بن چکی ہے۔ میڈیا کبھی اس قدر دباؤ میں اور حکومت کی تابعداری میں نہیں تھا ۔ میڈیا ہاؤزس کے مالکین حکومت اور بی جے پی کی گود میں ہیں اسی لئے عوام نے انہیں گودی میڈیا کا نام دیا ہے۔ بے باک اینکرس کو ملازمت سے برطرف کرتے ہوئے چاٹو کاروں کو بھردیا گیا۔ نیشنل میڈیا کا مین اسٹریم بی جے پی کے ہاتھ میں ہے جس کا کام دن رات حکومت کا بھجن کرنا اور خامیوں کو خوبیوں کی طرح پیش کرنا ہے ۔ میڈیا کے ذریعہ اپوزیشن کو کمزور کردیا گیا اور عوام کے ذہن میں تعصب پیدا کیا گیا کہ اپوزیشن کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف بی جے پی ملک میں اچھے دن لاسکتی ہے۔ آزاد میڈیا اور صحافیوں کو جھوٹے مقدمات کے تحت جیلوں میں بند کردیا گیا۔ ملک کے نامور صحافیوں کا کہنا ہے کہ ایمرجنسی سے بدتر حالات پیدا کئے گئے اور میڈیا پر کنٹرول نے غیر جانبداری کو مشکوک بنادیا ہے۔ آزادی صحافت پر خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔ میڈیا پر کنٹرول کا یہ عالم ہے کہ اودے پور واقعہ کے ملزمین اور کشمیر میں گرفتار دہشت گردوں کے بی جے پی کارکن ثابت ہونے کے باوجود کسی نے دنیا کو دکھانے کی ہمت نہیں کی۔ ان کی تصاویر بی جے پی کے سینئر قائدین کے ساتھ وائرل ہوئی ہیں۔ اگر یہی تصاویر کانگریس قائدین کے ساتھ ہوتی تو آسمان سر پر اٹھالیا جاتا۔ اتنا ہی نہیں کانگریس قائدین کو تحقیقات کیلئے طلب کیا جاتا۔ ظاہر ہے کہ جب قلم ہی کسی کا غلام ہوجائے تو اس سے انقلاب کی توقع کرنا عبث ہے۔ ہندوستان نے دنیا بھر میں ملک کی تصویر آزادیٔ اظہار خیال کے محافظ کے طور پر پیش کی ہے ۔ G-7 سمٹ میں وزیراعظم نریندر مودی نے آزادیٔ اظہار خیال کے تحفظ کے معاہدہ پر دستخط کئے لیکن ملک میں حکومت کا عمل معاہدہ کے برعکس ہے۔ اظہار خیال کی آزادی ضرور ہے لیکن یہ سیلکٹیو ہے۔ بی جے پی سنگھ پریوار اور گودی میڈیا اینکرس کو آزادی ہے کہ وہ اپوزیشن قائدین جہد کاروں اور دیانتدار صحافیوں کے خلاف زہر اگلیں تاکہ انہیں بآسانی جیل بھیج دیا جائے۔ شانِ رسالت میں گستاخی کے مرتکب بی جے پی ترجمانوں نپور شرما اور نوین جندال کے خلاف اندرون ملک احتجاج اور مسلم و عرب ممالک کی ناراضگی کے باوجود آج تک گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی جبکہ نپور شرما کو بے نقاب کرنے والے صحافی محمد زبیر کو سنگین الزامات کے تحت جیل بھیج دیا گیا ۔ آخر بی جے پی کو نپور شرما اور جندال سے کیا ہمدردی ہے ، جن کی گستاخی کے نتیجہ میں ملک کا ماحول خراب ہوا ، ان کا تحفظ کیا جارہا ہے ۔ زبیر کے خلاف راتوں رات سنگین دفعات کا اضافہ کیا گیا تاکہ رہائی ممکن نہ ہو۔ سپریم کورٹ نے زبیر کو عبوری ضمانت تو منظور کی لیکن ایک اور مقدمہ میں انہیں جیل میں رہنا پڑے گا۔ حکومت نہیں چاہے گی کہ زبیر ضمانت پر رہا ہوں۔ نپور شرما سے بی جے پی کی ہمدرد سے صاف ہے کہ بی جے پی ان کے خیالات سے متفق ہے۔ نریندر مودی اور امیت شاہ نے آج تک بھی گستاخان رسول کے بیانات کی مذمت تک نہیں کی۔ جس حکومت نے تسلیمہ نسرین اور طارق فتح جیسے گستاخوں کو ملک میں پناہ دے رکھی ہے، وہ نپور شرما کے خلاف کیا کارروائی کرے گی ؟ مودی اور بی جے پی کو سوال کرنے والے پسند نہیں ہے اسی لئے 8 برسوں میں مودی نے ایک بھی پریس کانفرنس نہیں کی۔
سپریم کورٹ کے غیر جانبدار ججس کو مخالف حکومت تبصروں اور فیصلوں سے روکنے کیلئے سابق بیورو کریٹس اور ریٹائرڈ ججس کو میدان میں اتارا گیا۔ نپور شرما معاملہ میں سپریم کورٹ کے دو ججس نے حقائق پر مبنی بیان دیا تھا اور نپور شرما کو ملک سے معذرت خواہی کی ہدایت دی تھی۔ سپریم کورٹ کے ججس کے بیان پر حکومت اور بی جے پی نے تو کچھ نہیں کہا لیکن 150 سے زائد ریٹائرڈ ججس اور بیورو کریٹس کو میدان میں اتارا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نپور شرما کے خلاف کارروائی کے بجائے سپریم کورٹ کے ججس کو نشانہ بنانے کا مقصد کیا ہے ۔ یہ ریٹائرڈ ججس اور بیورو کریٹس اس وقت کہاں تھے جب جہد کاروں اور صحافیوں کو جھوٹے مقدمات کے تحت جیلوں میں بند کیا گیا ۔ وہ اس وقت کہاں تھے جب مسلمانوں کے مکانات پر بلڈوزر چلائے گئے۔ بابری مسجد کو رام مندر کے لئے حوالے کرنے کے فیصلہ کے بعد رنجن گوگوئی کو جب راجیہ سبھا کی نشست تحفہ میں دے دی گئی تو اس وقت ریٹائرڈ ججس خاموش کیوں رہے۔ امیت شاہ نے 30 تا 40 برسوں تک بی جے پی کے اقتدار کا دعویٰ کیا ہے۔ امیت شاہ کا یہ بیان ان کے ارادوں کو ظاہر کرتا ہے ، حالانکہ یہ محض خواب کے سوا کچھ نہیں۔ سامان 100 برس کا پل کی خبر نہیں کے مصداق امیت شاہ 30 سال تک بی جے پی اقتدار کا دعویٰ کرتے ہوئے دراصل دستوری اور جمہوری اداروں کو قابو میں کرنا چاہتے ہیں۔ اسی منصوبہ کے تحت سپریم کورٹ کے ججس کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے، حالانکہ عدلیہ پر تبصرہ کرنے کا کسی کو حق نہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ ساتھی ججس کے خلاف مہم پر چیف جسٹس سپریم کورٹ بھی خاموش رہے۔ ماہرین قانون کا ماننا ہے کہ ساتھی ججس کے حق میں چیف جسٹس کو اظہار خیال کرنا چاہئے۔ ملک کے موجودہ حالات پر سماج وادی قائد اعظم خاں نے اپنے کرب کا اظہار کرتے ہوئے مسلمانوں کو رائے دہی کے حق سے محروم کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو زندہ رہنے ، مذہب پر عمل کرنے اور تعلیم کا حق دیا جائے۔ الیکشن میں جب مسلمانوں کو ووٹ دینے سے روکا جاتا ہے تو پھر اس حق کی کیا ضرورت ہے۔ بشیر بدر نے کیا خوب کہا ہے ؎
بڑے شوق سے مرا گھر جلا کوئی آنچ تجھ پہ نہ آئے گی
یہ زباں کسی نے خریدلی یہ قلم کسی کا غلام ہے