یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملاکرو

   

کورونا کی دوسری دستک … نافرمانی اور لاپرواہی کا نتیجہ
بنگال میں وہیل چیر دیدی سے بی جے پی خوفزدہ
رشیدالدین

دنیا میں جب کبھی کفر ، ظلم ، ناانصافی اور نافرمانی عام ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کی نشانیاں ظاہر کرتا ہے تاکہ انسان خدا کی طرف لوٹ آئے اور ہدایت حاصل کرے ۔ تاریخ انسانی گواہ ہے کہ جب کبھی کفر ، الحاد اور بے حیائی میں سر اٹھانے کی کوشش کی اور انسانوں میں خوف الٰہی ختم ہوگیا اور انسان خود کو بااختیار تصور کرنے لگا تو اللہ تعالیٰ آزمائش یا پھر عذاب کی شکل میں اپنے قہر کا اظہار کیا جو دوسرے معنوں میں عبرت اور مہلت کی طرح تھی۔ ساری انسانیت قدرت کے آگے بے بس ہے اور اس حقیقت کو اجاگر کرنے کیلئے وباؤں اور بلاؤں کے ذریعہ راہِ راست پر لانے کی کوشش کی گئی ۔ ایک معمولی وائرس نے دنیا کا سکون اور چین چھین لیا ہے ۔ دنیا نے چاند اور ستاروں کو مسخر کرنے کا دعویٰ کیا اور اب سورج پر قدم جمانے کے خواب دیکھے جارہے ہیں۔ سائنسی ترقی کے اس دور میں سوائے موت کے ہر مرض کے علاج کا دعویٰ کیا جانے لگا لیکن کورونا وائرس کے آگے دنیا کے تمام سائنسداں اور سیاستداں بے بس ہوچکے ہیں۔ کورونا نے موت کا ایسا کھیل کھیلا کہ ایک سال گزرنے کے باوجود تباہی کا سلسلہ جاری ہے ۔ کورونا ویکسین کا خوب ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ یہ تاثر دیا گیا کہ ویکسین کی ایجاد کے ساتھ ہی کورونا کا خاتمہ ہوجائے گا ۔ عوام ویکسین کو آبِ حیات اور سنجیونی تصور کرنے لگے لیکن ویکسین کے ٹیکہ اندازی کے درمیان کورونا کی دوسری لہر ہندوستان پر دستک دے رہی ہے ۔ پہلی لہر کے کمزور پڑنے اور کئی ممالک میں دوسری لہر کے خاتمہ کے بعد ہندوستان نے خود کو دوسری لہر سے محفوظ تصور کرلیا تھا ۔ ویکسین کے عام ہوتے ہی احتیاطی تدابیر کو پس پشت ڈال دیا گیا اور کووڈ رہنمایانہ خطوط کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ حکومتیں اور عوام کورونا سے بے پرواہ اور بے خوف ہوگئے ، ایسے میں دوسری لہر نے موت کے کھیل کی دوسری اننگز شروع کی ہے۔ دراصل انسانیت کو وحدانیت اور قدرت کا قائل ہونے کا موقع دیا گیا ہے۔ ویکسین کی موجودگی میں دوسری لہر کا آغاز اس بات کی علامت ہے کہ انسان لاکھ ویکسین تیار کرلیں لیکن شفاء اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے ۔ جب تک شفاء کا حکم نہیں ہوگا ویکسین اثرانداز نہیں ہوسکتی۔ ویکسین تو محض ایک بہانہ ہے اور اس کی ایجاد کرنے والوں کا بھی کوئی خالق حقیقی ہے جس کے حکم کے بغیر شفاء کا تصور محال ہے۔ پہلی لہر کے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش کہا گیا تھا لیکن دوسری لہر کے نمودار ہوتے ہی محسوس ہورہا ہے کہ جیسے کہ یہ آزمائش نہیں بلکہ عذاب الٰہی ہے۔ کوئی بھی قوم لاکھ سرکش ہوجائے اللہ تعالیٰ اسے مہلت دیتا ہے اور جب مہلت کی حد ختم ہوجائے تو سزا کے ذریعہ دوسروں کیلئے عبرت کا سامان کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں انسان کو ناشکرا کہا گیا ہے کیونکہ مصیبت میں خدا سے رجوع ہوتا ہے اور جب مصیبت ٹل جائے تو نافرمانی شروع ہوجاتی ہے۔ گزشتہ سال مارچ میں کورونا کے قہر کے بعد تمام مذاہب کے ماننے والے اپنے اپنے عقیدہ کے اعتبار سے عبادت میں مصروف ہوگئے۔ ہر شخص کچھ زیادہ ہی مذہبی اور نیک دکھائی دے رہا تھا ۔ عبادت گاہوں کو عبادت کیلئے کھولنے کی مانگ کی جانے لگی ، جب محدود تعداد میں اجازت دی گئی تو عبادت گاہیں تنگ دامنی کا شکوہ کرنے لگیں ۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ سارا معاشرہ نیک اور خدا پرست ہوچکا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے رحم کھاکر جب کورونا کی شدت کو کم کیا تو اسے امتحان تصور کرنے کے بجائے دوبارہ اصلیت پر آگئے ۔ پہلی لہر پر محفوظ رہنے پر شکر کرنے کے بجائے صورتحال میں بہتری کے ساتھ ہی کفران نعمت کیا گیا ۔ سابق کی طرح تمام غیر اسلامی ، غیر اخلاقی اور غیر انسانی مشاغل کا آغاز ہوگیا جس سے انسانیت شرمسار ہوتی ہے ۔ کورونا کی کمی کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کو بھلادیا گیا اور نافرمانی کے کام عام ہوگئے۔ نجی زندگی اور اجتماعی زندگی احکام شریعت کے تابع ہونے کے بجائے شیطان کے بہکاوے کا شکار ہوگئے۔ کورونا کے دوران رب چاہی زندگی گزارنے والے من چاہی زندگی بسر کرنے لگے۔ شادی ، بیاہ اور دیگر تقاریب میں غیر اسلامی طور طریقے دوبارہ عام ہوگئے۔ اسراف ، رقص و سرور کی محافل اور ناچ گانے پر دولت لٹائی جانے لگی۔ کوئی غریب ضرورت مند مدد طلب کریں تو کورونا لاک ڈاؤن میں نقصانات کا بہانا لیکن شادی بیاہ میں جھوٹی شان کے اظہار کے لئے لاکھوں روپئے کا زیاں قہر خداوندی کو دعوت دینے کیلئے کافی تھا ۔ حرام کاری اور حرام خوری ، دعاؤں کی عدم قبولیت کی اہم وجوہات ہوتی ہیں۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ وبائیں اور بلائیں موجودہ حالات میں عذاب الٰہی کا اظہار ہیں۔ رمضان المبارک سے عین قبل دوسری لہر کے آغاز سے مساجد میں عبادتوں کو پھر ایک بار خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ ویسے بھی ہمارے اعمال اور کردار کچھ اس طرح ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے گھروں میں آنے کی اجازت دینا نہیں چاہتا۔ عبادت میں اخلاص ، للہیت ، خشوع و خضوع ہو تو گھر کے کسی گوشے سے مانگی جانے والی دعا بارگاہِ الٰہی میں قبولیت کا شرف حاصل کرتی ہے ۔ پہلی لہر کے کمزور ہوتے ہی لاپرواہی اور معمولات زندگی میں بے احتیاطی کے ذریعہ عوام نے اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈھکیلنے کا کام کیا ہے ۔ نہ صرف عوام بلکہ حکومتوں کی سطح پر احتیاطی اقدامات کو نظر انداز کردیا گیا جس کا خمیازہ پھر ایک بار بھولے بھالے عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔ ملک کی 8 ریاستیں کورونا کی زد میں ہیں اور مقامی سطح پر دوبارہ جزوی اور مکمل لاک ڈاؤن نافذ کیا جارہا ہے ۔ ماہرین نے ملک بھر میں دوسری لہر کے تباہ کن ہونے کی پیش قیاسی کی ہے ۔ تلنگانہ میں پھر ایک بار کورونا کیسس میں اضافہ تشویش کا باعث ہے۔ اس مرتبہ اسکولی طلبہ زیادہ تر وائرس کا شکار ہورہے ہیں۔ کورونا سے بچاؤ کے لئے سائنسی نقطہ نظر بھلے ہی کچھ ہو لیکن دینی اور مذہبی اعتبار سے رجوع الی اللہ اور گناہوں سے بچاؤ واحد حل رہے گا۔
بنگال ٹائیگر اگرچہ شیروںکی ایک نسل کا نام ہے لیکن موجودہ سیاسی حالات میں بنگال ٹائیگر کے نام کے ساتھ ہی ممتا بنرجی کا تصور عام ہوچکا ہے ۔ ظاہر ہے کہ شیر ہو کہ شیرنی وہ جب زخمی ہوجائیں تو اس کے تیور جارحانہ ہوتے ہیں۔ زخمی شیر کا سامنا کرنے سے ماہر شکاری بھی گھبراتے ہیں اور اگر زخمی شیرنی بنگال سے ہو تو پھر خوف کا عالم کیا ہوگا۔ ان دنوں ممتا بنرجی زخمی شیر کی طرح اپنے سیاسی حریفوں پر حملہ آور ہیں۔ بی جے پی نے سمجھا تھا کہ زخمی ہونے کے بعد ممتا بنرجی گھر یا دواخانہ کے کمرہ تک محدود ہوجائیں گی لیکن جنگل کے شیر کو زو یا پھر سرکس کے پنجرے میں قید نہیں کیا جاسکتا۔ ممتا بنرجی نے اپنے سیاسی کیریئر سے یہ ثابت کردیا کہ وہ سرکس کی نہیں بلکہ حقیقت میں بنگال ٹائیگر ہیں۔ حالیہ ایک واقعہ میں زخمی ہونے کے بعد اپوزیشن نے راحت کی سانس لی تھی۔ مودی اور امیت شاہ کیلئے بنگال کا سیاسی میدان خالی دکھائی دے رہا تھا لیکن دیدی نے وہیل چیر کے ذریعہ انتخابی میدان میں دوبارہ انٹری لی جس کے بعد مخالفین خود کو بچانے کیلئے دوڑ دھوپ کرنے لگے ۔ ’’کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے‘‘ کے مصداق دیدی کی انتخابی مہم میں دوبارہ شرکت نے ترنمول کیڈر اور حامیوں کے حوصلوں کو بلند کردیا ہے۔ مودی ۔امیت شاہ بھی تسلیم کرنے لگیں ہیں کہ وہیل چیر دیدی سے مقابلہ آسان نہیں ہے۔ زخمی ہونے کے بعد ممتا کے تیور اور بھی جارحانہ ہوگئے ۔ زخمی ہونے کا معاملہ چاہے حملہ ہو کہ حادثہ دونوں صورتوں میں سیاسی فائدہ تو ترنمول کانگریس کو ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ بی جے پی والے اب دل ہی دل میں دیدی کی جلد صحت یابی کی دعائیں کر رہے ہیں تاکہ وہیل چیر حملہ سے محفوظ رہیں۔ وہیل چیر نے دیدی کے حق میں ہمدردی کی ایسی لہر پیدا کردی ہے کہ اس کا سامنا اب بی جے پی کے بس کی بات نہیں ۔ ہوسکتا ہے انتخابی مہم کے اختتام تک دیدی اور وہیل چیر کا رشتہ اٹوٹ رہے گا۔ ممتا کو تنہا کرنے کی کوشش کی گئی ، بھلے ہی کئی ساتھی چھوڑ کر چلے گئے لیکن وہیل چیر مدد کے لئے آ پہنچی۔ بنگال کی صورتحال بھی بی جے پی کے ہاتھ سے نکل رہی ہے۔ مودی اور امیت شاہ کے دوروں اور تقریروں کے ذریعہ حملوں میں وہ شدت باقی نہیں رہی جو ابتداء میں تھی ۔ ظاہر ہے کہ لیڈر کو جوش اس وقت آتا ہے جب عوام ساتھ ہوں ۔ یہاں تو اب بی جے پی کی ریالیوں سے عوام دوری اختیار کرنے لگے ہیں۔ مودی اور امیت شاہ کی ریالیوں کی رپورٹنگ میں گودی میڈیا کو کیمرہ عوام پر رکھنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ میدان اکثر و بیشتر خالی رہتا ہے۔ آسام میں بھی بی جے پی کو دوبارہ اقتدار میں واپسی ممکن دکھائی نہیں دیتی۔ ممتاز شاعر بشیر بدر نے کیا خوب کہا ہے ؎
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملوگے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو