۔36 رافیل طیارے خریدنے مودی کے فیصلے سے ہر طیارہ کی قیمت میں 41 فیصد کا اضافہ

   

این رام
وزیر اعظم نریندر مودی نے 10 اپریل 2015 کو پیرس میں اچانک ہی اعلان کیا تھا کہ فرانس سے 126 کی بجائے صرف 36 رافیل جیٹ طیارے خریدے جائیں گے جبکہ انڈین ائر فورس نے چھ اسکواڈرنس کیلئے 126 طیاروں کی ضرورت کا اظہار کیا تھا ۔ مودی کے اس فیصلے کی وجہ سے ہر پوری طرح سے فٹ اور لڑائی کیلئے تیار طیارہ کی قیمت میں 41.42 فیصد کا اضافہ ہوگیا تھا ۔ این ڈی اے حکومت نے ہی ہندوستان کیلئے مخصوص ڈیزائین اور تبدیلی کیلئے جملہ 1.3 بلین یوروز کی لاگت کو قبول کرنے کا فیصلہ این ڈی اے حکومت نے ہی کیا ہے ۔ اسی قیمت کو 126 کی بجائے 36 طیاروں میں تقسیم کیا گیا یہی سب سے بڑی وجہ ہے کہ طیاروں کی قیمت میں بھاری اضافہ ہوگیا ۔
این ڈی اے حکومت نے پارلیمنٹ کی مراعات کمیٹی کے سامنے تک بھی ایک رافیل طیارہ کی قیمت سے متعلق تفصیلات پیش کرنے سے انکار کردیا اور اس کا استدلال تھا کہ قیمت کا اظہار کرنے میں فرانس کے ساتھ کیا گیا ایک معاہدہ معذوری کی وجہ ہے ۔ حکومت فرانس نے تاہم یہ واضح کردیا کہ یہ صرف ایک بین حکومتی معاہدہ تھا جس کا مقصد خفیہ اطلاعات کو محفوظ بنانا تھا کیونکہ اگر اس کا افشا کیا جاتا تو اس سے سکیوریٹی اور دفاعی آلات کی کام کرنے کی صلاحیتوں پر اثر ہوتا ۔ جو تحدیدات ہیں وہ قیمتوں کی تفصیلات بتانے پر ہرگز لاگو نہیں ہوتیں۔ در حقیقت میڈیا رپورٹس کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو انکشاف ہوتا ہے کہ فوج اور سیویلین ڈیفنس عہدیداروں نے منتخبہ بنیادوں پر اس معاملت کی فنی اور دیگر حساس سمجھی جانے والی تفصیلات کو ظاہر کیا ہے اور ان سے تمام تو نہیں لیکن کچھ سوالات کے جواب تلاش کرنے میں مدد مل سکتی ہے جو رافیل معاملت سے متعلق کئے جا رہے ہیں۔ خاص طور پر اس سے میڈیم ملٹی رول کمباٹ طیاروں کی قیمت کے تعلق سے معلومات ہوسکتی ہیں۔
یہ مضمون خاص طور پر صرف ’’ دی ہندو ‘‘ کیلئے دستیاب ہے جس میں اس دلچسپ سوال پر توجہ کی گئی ہے کہ ہر رافیل جیٹ طیارہ کی قیمت کس طرح اور کیوں بڑھی ہے اور عملا اسی طرح کی صلاحیتوں اور خصوصیات کو تین موقعوں پر 2007, 2011 اور 2016 میں تبدیل کیا گیا ہے ۔

2007 میں ‘ ایم ایس ڈسالٹ اوئیشن کو اقل ترین بولی لگانے والی کمپنی اور ایک طرح سے یو پی اے حکومت کی جانب سے طلب کئے گئے ٹنڈر حاصل کرنے والی کمپنی قرار دینے سے پانچ سال قبل ‘ ٹنڈر حاصل کرنے والوں نے فی طیارہ کی قیمت 79.3 ملین یوروز بتائی تھی ۔ یہ ٹنڈر جملہ 126 رافیل جیٹ طیاروں سے متعلق تھا جن میں 18 فلائی وے اور 108 تیار ‘ انڈر لائسنس طیارے بھی شامل تھے جنہیں ہندوستان میں ہندوستان ایروناٹکس لمیٹیڈ نے تیار کرنا تھا ۔ 2011 تک طیارہ کی قیمت بڑھتے ہوئے 100.85 ملین یوروز ہوگئی جبکہ 2016 میں 2011 کی قیمت پر این ڈی اے حکومت نے 36 رافیل طیاروں کیلئے بین حکومتی معاہدہ کے تحت 9 فیصد ڈسکاونٹ حاصل کیا جس سے فی طیارہ کی قیمت 91.75 ملین یوروز رہ گئی ۔
تاہم یہ صرف آدھی کہانی بھی نہیں ہے ۔ ڈسالٹ نے ان طیاروں میں ہندوستان کیلئے مخصوص تبدیلیوں کے عوض 1.4 بلین یوروز طلب کئے ۔ ان میں ہارڈویر اور سافٹ ویر کی اضافی صلاحیتیں بھی شامل ہیں اور ان پر انڈین ائر فورس کچھ وقت سے زور دے رہی تھی اور اس قیمت کو 1.3 بلین یوروز پر طئے کرلیا گیا ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ڈیزائین اور ڈیولپمنٹ کی قیمت ‘ جو اب 36 رافیل طیاروں میں تقسیم کی جا رہی ہے اس کے نتیجہ میں ہر طیارہ کی قیمت 11.11 ملین یورو سے بڑھ کر 36.11 ملین یوروز ہوگئی جب 2016 میں اس معاہدہ کو قطعیت دی گئی ۔ ’’ دی ہندو ‘‘ نے سرکاری دستاویزات کا جائزہ لیا ہے جن سے انکشاف ہوتا ہے کہ وزارت دفاع کے تین سینئر عہدیداروں نے جو سات رکنی مذاکراتی ٹیم کا حصہ تھے 1.3 بلین کی بھاری قیمت کی مخالفت کی تھی جس کا ٹنڈر حاصل کرنے والی کمپنی ( ڈسالٹ اوئیشن ) نے مطالبہ کیا تھا ۔ راجیو ورما جوائنٹ سکریٹری و حصولیات مینیجر ( ائر ) اجیت سولے ‘ فینانشیل مینیجر ( ائر ) اور ایم پی سنگھ مشیر ( قیمت ) نے نوٹ کیا کہ ہندوستان سے متعلق تبدیلیوں کی قیمت بہت زیادہ ہے ۔ ( یہ بھی سرکاری ریکارڈ کا معاملہ ہے کہ وزارت دفاع کے تین سینئر عہدیداروں نے مجوزہ بین حکومتی معاہدہ کے کئی دوسرے پہلووں کی بھی مخالفت کی تھی )۔

اعتراضات جو مسترد کردئے گئے
ہندوستان کی مذاکراتی کمیٹی کے دوسرے چار ارکان ڈپٹی چیف آف ائر اسٹاف ( انڈین ائر فورس ) جنہوں نے ٹیم کی قیادت کی تھی ‘ جوائنٹ سکریٹری ( ڈیفنس آف سیٹ مینجمنٹ ونگ ) ‘ جوائنٹ سکریٹری و اڈیشنل فینانس مشیر و اسسٹنٹ چیف آف ائر اسٹاف ( پلانس ) نے ان اعتراضات کو مسترد کردیا ۔ ایک متعلقہ قرار داد میں کہا گیا کہ ’’ سات رکنی ہندوستانی مذاکراتی ٹیم نے اکثیرتی رائے 4 – 3 سے فیصلہ کیا ہے کہ 1.3 بلین یوروز کی قیمت سابقہ 1.4 بلین یوروز سے کافی بہتر ہے ۔ مزید یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ ہندوستان کیلئے مخصوص تبدیلیوں کی قیمت بار بار پیش نہ آنے والی ہوگی اور اس سے جو طیارے خریدے جاریہ ہیں ان کی تعداد متاثر نہیں ہوگی ۔ حقائق کو ڈیفنس ایکویزیشن کونسل ( ڈی اے سی ) میں پیش کیا گیا تھا جس نے مذاکراتی ٹیم کے خیال سے اتفاق کیا اور اسے کابینہ کی سلامتی سے متعلق کمیٹی نے بھی منظوری دیدی ۔
سرکاری ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ 36 رافیل طیارے خریدنے حکومت کی تائید والی تجاویز کو 2015 اگسٹ اور جولائی 2016 کے درمیان کئی موقعوں پر ڈیفنس اکویزیشن کونسل کے روبرو پیش کیا گیا ۔ یہ بات یقینی طو رپر اہمیت کی حامل ہے کہ مذاکراتی ٹیم میں جو جملہ 10 اختلافی مسائل اٹھائے گئے تھے انہیں 4 – 3 اکثریتی فیصلے سے حل کرلیا گیا ۔ مذاکراتی ٹیم نے اپنا کام مکمل کرنے کے بعد رپورٹ 4 اگسٹ 2016 کو پیش کردی ۔
سپریم کورٹ میں حکومت نے جو فیصلہ سازی کے عمل کی تفصیلات پیش کی ہیں ان کے مطابق مذاکراتی ٹیم کی رپورٹ اور سلامتی سے متعلق کابینی کمیٹی کی منظوری حاصل کرنے کی تجاویز کو وزارت دفاع نے آگے بڑھایا ‘ بین وزارتی مشاورتیں وزارت فینانس اور وزارت قانون و انصاف کے ساتھ ہوئیں اور ان تجاویز کو 24 اگسٹ 2016 کو سلامتی سے متعلق کابینی کمیٹی کے روبرو پیش کیا گیا ۔ ان تجاویز میں قیمتوں اور دوسرے اختلافی مسائل کے امور بھی شامل تھے ۔
ڈی اے سی کا رول
یہ بھی اہمیت کی بات ہے کہ سرکاری نوٹس میں ڈیفنس اکویزیشن کونسل کے مزید کسی رول کا حوالہ نہیں دیا گیا ہے جس کے سربراہ وزیر دفاع منوہر پریکر تھے ۔ ڈی اے سی کو ڈیفنس پروکیورمنٹ طریقہ کار کے مطابق فیصلہ کرنے کا اختیار تھا تاہم مسٹر پریکر نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی اور مسئلہ کو آگے بڑھا دیا ۔ دوسرے الفاظ میں انہوں نے ذمہ داری سے فرار اختیار کی اور اس کا ذمہ سکیوریٹی سے متعلق کابینی کمیٹی پر عائد کردیا جیسا کہ مذاکراتی ٹیم کے سربراہ نے سفارش کی تھی ۔ یہ سب کچھ زیادہ حیرت انگیز نہیں تھا کیونکہ ایک سال قبل ہی وزیر اعظم مودی نے اپنے ارادے ظاہر کردئے تھے اور سابقہ دہے میں اختیار کئے گئے طریقہ کار کو تبدیل کرنے کا اشارہ دیا تھا ۔ یہ کام انہوں نے فرانس میں بیان دیتے ہوئے کیا تھا اور کہا تھا کہ 36 رافیل لڑاکا جیٹ طیارے فلائی وے حالت میں خریدے جائیں گے اور یہ علیحدہ طریقہ کار ہوگا ۔ سکیوریٹی کی کابینی کمیٹی کے سربر اہ وزیر اعظم ہی ہیں اور اس نے مذاکراتی ٹیم کے بیشتر فیصلوں کو بسرعت منظوری دیدی ۔
انڈین ائر فورس نے یو پی اے دور میں اور 2016 کی معاملت دونوں میں رافیل طیاروں میں 13 مخصوص تبدیلیوں کی خواہش ظاہر کی تھی ۔ ا سکے علاوہ اضافی آلات نصب کرنے کی سفارش بھی کی گئی ۔ اس کے نتیجہ میں ڈسالٹ اوئیشن کی جانب سے معلنہ قیمت میں اضافہ ہوا ۔
بی جے پی حکومت نے ہندوستان سے متعلق مخصوص تبدیلیوں کا انکشاف کرنے سے انکار کیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ قومی سلامتی بھی ہوسکتی ہے ‘ یہ بات انتہائی غیر ممکن ہے کہ اس اطلاع کو فوجی ماہرین اور صحافیوں کی بین الاقوای برادری سے ہمیشہ راز میں رکھاجائے ۔ در اصل کچھ اطلاعات ابھی سے عوامی حلقوں میں آگئی ہیں۔ انڈین ائر فورس کے ایک دستاویز کا ایک سابقہ رپورٹ میں حوالہ دیا گیا ہے ۔ یہ رپورٹ ان طیاروں کی ہندوستان سے متعلق مخصوص تبدیلیاں اور ان کی حوالگی کے بعد کے اقدامات کی تفصیل بھی شامل ہے ۔ یہ تبدیلیاں دوسرے ممالک کے محصلہ رافیل طیاروں میں نہیںہیں۔ ان میں راڈار کی صلاحیت کو بڑھانا بھی شامل ہے جس سے ائر فورس طویل فاصلہ تک بہتر صلاحیت کے ساتھ کام کرسکے ۔ علاوہ ازیں اس میں ایک ہیلمٹ چڑھا ہوا ڈسپلے بھی شامل ہے جس کے ذریعہ انڈیا ائر فورس کے پائلٹس بیک وقت کئی خطرات کا جواب دے سکتے ہیں۔ اس میں بلندیوں پر واقع فضائی پٹیوں سے طیاروں کی پرواز کے آغاز وغیرہ کی صلاحیت بھی شامل ہے ۔ اس میں ایک انفرا ریڈ تلاشی سنسر ‘ ایک انتہائی صلاحیت والا الیکٹرانک جامر وغیرہ بھی شامل ہے ۔دی ہندو کے پاس ہندوستان سے متعلق تمام مخصوص تبدیلیوں کی فہرست موجود ہے لیکن اسے یہاں پیش نہیں کیا جائیگا کیونکہ فہرست میں فنی تفصیل بھی موجود ہے جس کو راز میں رکھنے حکومت مصر ہے ۔
خصوصی فائدے ؟
ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا 2015 – 16 میں این ڈی اے حکومت کو کوئی مخصوص فائدہ ہوا جس سے حکومت نے 36 پوری طرح تیار رافیل طیاروں کی قیمت میں کوئی خاطر خواہ کمی کرواسکے ؟ ۔ جواب اثباتی ہے اور یہ فائدہ اگر منہ میں پانی لانے کے برابر نہ صحیح لیکن پرکشش ضرور تھا اور یہ پیشکش یورو فائٹر کنسورشیم نے کی تھی جو معروف ایرو اسپیس اور ڈیفنس کمپنیوں پر مشتمل ہے جن کا برطانیہ ‘ جرمنی ‘ اٹلی اور اسپین سے تعلق ہے ۔ در اصل سرکاری دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ مذاکراتی ٹیم کے تین اختلافی ارکان نے اس انداز میں یہ مسئلہ اٹھایا تھا ۔ ’’ یوروپین ایروناٹک ڈیفنس اینڈ اسپیش کمپنی ( ای اے ڈی ایس ) کی جانب سے ٹنڈر میں 20 فیصد ڈسکاونٹ کی جو پیشکش کی گئی ہے اسے نظر انداز کردیا گیا ۔ مذاکراتی ٹیم کو 36 رافیل طیاروں کی قیمت پر کوٹیشن لینا چاہئے تھا اور پھر تقابلی اساس پر فیصلہ کرنا چاہئے تھا‘‘ ۔ اس تعلق سے مذاکراتی ٹیم کی قرار داد جو 4 – 3 سے منظور کی گئی اس میں کہا گیا ہے کہ 20 فیصد کی جو پیشکش کی گئی تھی وہ دفاعی حصولی کے طریقہ کار اور سنٹرل ویجیلنس کمیشن کے خطوط کی مطابقت میں نہیں ہے کیونکہ یہ بولیاں بند ہونے کے بعد کی گئی تھی ۔
یورو فائٹر فنی اور فلائیٹ تفصیلات کے ساتھ آگے آیا تھا جو 2009 سے 2011 کے درمیان ہوئی تھیں اور رافیل سے تقابل پر یہ انڈین ائر فورس کی ضروریات کی تکمیل بھی کرسکتے تھے ۔ قیمت کے معاملہ میں اسے رافیل کے آگے شکست ہوگئی ۔ 126 رافیل طیارے حاصل کرنے کیلئے بات چیت کئی پیچیدہ وجوہات کی وجہ سے رکی رہی تھیں اس وقت یورو فائٹر کنسورشیم نے ائر بس کے ذریعہ اس موقع کو غنیمت سمجھا ۔ 4 جولائی 2014 کو ایک مکتوب ائر بس ڈیفنس اینڈ اسپیس کے ہیڈ آف ملٹری ائر کرافٹ ڈومنگو اورینا ۔ راسو نے اس وقت کے وزیر دفاع ارون جیٹلی کو ایک مکتوب روانہ کیا تھا ۔ اس میں ایک تازہ پیشکش کی گئی تھی ۔ اس میں 126 یورو فائٹر Typhoons پر جملہ پیکج کی قیمت میں 20 فیصد کمی کی پیشکش شامل تھی ۔ کہا گیا تھا کہ بہتر ائر کرافٹ صلاحیتیں فراہم کی جائیں گی ‘ ادائیگیوں میں سہولت رہیگی ‘ ٹکنالوجی کی منتقلی موثر کی جائیگی ‘ ہندوستان میں ایک یورو فائٹر ٹائیفون انڈسریل پارک قائم کیا جائیگا ‘ ایک جامع ٹریننگ و سپورٹ پروگرام چلایا جائیگا اور جرمنی ‘ برطانیہ ‘ اٹلی اور اسپین کو فراہم کئے جانے والے فائٹرس کو روک کر ہندوستان کو تیزی سے یہ طیارے حوالے کردئے جائیں گے ۔ تاکہ حکومت ہند کو فائدہ ہوسکے ۔ کیا حکومت اس پروگرام سے استفادہ کرنا چاہتی ہے ؟ ۔
ایسا نہیں لگتا کہ یورو فائٹر کی نئی پیشکش پوری طرح قابل مسترد تھی ۔ مسٹر جیٹلی کے نام اورینا ۔ راسو کے مکتوب میں ایک جملہ ہے کہ ’’ حکومت ہند نے اپنے موجودہ لڑاکا طیاروں کے بیڑے کو تبدیل کرنے میں جو دلچسپی دکھائی ہے اس سے ہم متوجہ ہوئے ہیں اور ہم آپ کی درخواست سے خوش ہیں جو ہماری اقوام کے سفیر کے ذریعہ کی گئی ہیں‘‘ ۔
یورو فائٹر کنسورشیم کی جانب سے جو سہولیات فراہم کرنے کی پیشکش کی گئی اس سے استفادہ کا موقع گنوادیا گیا ۔ سرکاری بیان کہ اس پیشکش پر اس وقت ڈی پی پی اور سی وی سی قوانین کی رو سے غور کرنا ممکن نہیں تھا صرف بحث کا نکتہ ہوسکتا ہے ۔ ایم ایس ڈسالٹ کے ساتھ راست تجارتی معاہدہ کرنے کے بجائے ایک بین حکومتی معاہدہ کرنا زیادہ بہتر تھا تاکہ 36 فلائی وے فائٹر جیٹ طیارے خریدے جاسکیں نہ کہ 18 ۔ اس کے ساتھ ہی 108 طیارے لائسنس کے تحت ایچ اے ایل کی جانب سے تیار کئے جانے تھے ۔ ہندوستانی و فرانسیسی حکومتوں اور ڈسالٹ کے مابین عملا نیا معاہدہ ہوا ۔ حالانکہ جو قیمت پیش کی جا رہی تھی اگر وہ منظور نہیں ہے تو مذاکرات سے دوری اختیار کرنے کا امکان موجود تھا ۔
36 جیٹ طیاروں میں تقسیم
اس مضمون میں پیش کی گئی نئی اطلاعات کو ختم کرتے ہوئے 2007 میں ڈسالٹ اوئیشن نے جو بولی دی تھی ‘ ہندوستان کیلئے مخصوص تبدیلیوں کیلئے جو 1.4 بلین کا دعوی کیا گیا تھا اسے 126 طیاروں میں تقسیم کرنا تھا ۔ حالانکہ یہ طئے شدہ قیمت تھی اور اسے 1.3 بلین یوروز پر طئے کرلیا گیا تھا لیکن 2016 میں بین حکومتی معاہدہ کے تحت اس اضافہ کو صرف 36 لڑاکا جیٹس میں تقسیم کیا گیا ۔ اس کے نتیجہ میں ہر طیارہ کی قیمت یو پی اے دور میں طئے قیمت سے راست 25ملین یوروز کا اضافہ ہوگیا ۔ 2016 میں فرانس نے جو 9 فیصد ڈسکاونٹ کا وعدہ کیا تھا ‘ اس کی بہ نسبت 25 ملین یوروز کا اضافہ بہت زیادہ تھا ۔ یہ ڈسکاونٹ صرف عصری آلات اور تبدیلیوں سے قبل کی قیمت پر تھا ۔
9 فیصد ڈسکاونٹ کی تشریح وزیر قانون روی شنکر پرساد نے ایک پریس کانفرنس میں کی تھی ۔ انہوں نے بتایا تھا کہ یو پی اے حکومت نے 2007 میں 126 طیاروں کیلئے بولیاں طلب کی تھیں۔ رافیل نے جو بولی دی وہ 79.3 ملین یورو کی تھی۔ جب اس بولی کو 2011 میں کھولا گیا تو مجوزہ قیمت اس دستاویز میں 100.85 ملین یورو تھی ۔ تاہم اس کو قطعیت نہیں دی گئی ۔ 2016 میں این ڈی اے کے اقتدار پر آنے کے بعد بین حکومتی معاہدہ کے تحت یہ قیمت 91.75 ملین یوروز طئے پائی ۔ ایسے میں این ڈی اے نے یو پی اے حکومت سے 9 فیصد کم قیمت پر طیارے حاصل کئے ہیں۔
وزیر قانون کے بیان میں جو بات واضح نہیں کی گئی وہ ڈیزائین اور تبدیلی کے اخراجات ایک سے زائد مرتبہ عائد نہ کرنے سے متعلق ہے ۔ فی یونٹ کی قیمت این ڈی اے نے 36 رافیل طیاروں کے سلسلہ میں طئے کی تو وہ 127.86 ملین یوروز طئے پائی جو 2007 میں دی گئی بولی کی قیمت سے 41.42 فیصد زیادہ تھی ۔ جب قیمت میں اضافہ کے فارمولے کا اطلاق ہوا این ڈی اے حکومت نے فی طیارہ جس قیمت سے اتفاق کیا تھا اس میں یو پی اے حکومت کے دور میں دی گئی بولی سے 14.20 فیصد اضافہ تھا۔
مسٹر ٹریپئیر نے جیسا کہ اپنے انٹرویو میں توثیق کی کہ 2007 اور 2011 کی قیمتوں کا مسٹر پرساد نے حوالہ دیا وہ صرف 18 فلائی وے طیاروں سے متعلق تھا ۔ مابقی 108 طیاروں کو لائسنس کے تحت ایچ اے ایل کی جانب سے بنگلورو میں تیار کرنا تھا جس کیئلے بات چیت کافی آگے بڑھ گئی تھی جب اچانک ہی ہندوستان نے حیرت انگیز اعلان کیا کہ ہندوستان 36 فلائی وے رافیل فرانس سے خریدے گا ۔ یہ اعلان پیرس میں کیا گیا ۔ دوسری باتوں کے علاوہ اس کا مطلب یہ تھا کہ ایچ اے ایل کو حاشیہ پر کردیا گیا اور اس کے ساتھ ہی ٹکنالوجی منتقلی ‘ دفاع کے شعبہ میں خود مکتفی ہونے اور میک ان انڈیا کو بھی بالائے طاق رکھ دیا گیا ۔
9 فیصد تک قیمت میں کٹوتی کے بدلے میں حکومت ہند نے دوسرے امکانات کو بھی ترک کردیا جو پہلے سے معاملت کا حصہ تھے اور یہ تمام 126 طیاروں سے متعلق تھے ۔ فالو آن کی جو گنجائش تھی اس کے تحت سابقہ معاہدہ کے مزید 50 فیصد تک کی خریدی کی سہولت تھی جسے تر ک کردیا گیا ۔ اس کیلئے بھی وہی شرائط ہوتیں جو پہلی معاملت کیلئے تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دفاعی معاملتوں میں یہ گنجائش ہمیشہ موجود رکھی جاتی ہے ۔ معاہدہ میں طویل بات چیت کے بعد یو پی اے حکومت کے پاس ایک مقررہ قیمت اور ڈیزائین و تبدیلی کے ساتھ 189 طیارے خریدنے کا امکان موجود تھا لیکن اسے مسترد کردیا گیا ۔
( بشکریہ دی ہندو )