2019 کے عام بجٹ میں اقلیتی امورکے بجٹ میں نہیں ہوا اضافہ، مولانا آزاد فاونڈیشن کے بجٹ میں تخفیف

,

   

مودی حکومت نے اپنی دوسری مدت کا پہلا مکمل بجٹ پیش کردیا ہے۔ بجٹ میں لانگ ٹرم پلان اورعام آدمی کی امیدوں کا بجٹ بنانے پرزوردیا گیا ہے، امیروں پرٹیکس بڑھایا گیا تو ساتھ ہی پٹرول اورڈیزل پرایک ایک روپئےایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کرکےغریب آدمی کی جیب بھی کاٹی گئی، لیکن سب سے زیادہ مایوسی اقلیتی طبقےکوہوئی ہے، حالانکہ اس بار بجٹ سےاقلیتی طبقے کو بڑی امیدیں تھیں۔

مرکزی حکومت کے ایک کروڑ اسکالرشپ کا وعدہ، شادی شگن اسکیم اورالورمیں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ یورنیورسٹی بنانے جیسے وعدوں کو دیکھتے ہوئےامید کی جارہی تھی کہ اقلیتی امورکی وزارت کے بجٹ میں بڑا اضافہ ہوگا، لیکن حکومت لبھانے والے اوربڑے وعدوں سے دوری بناتے ہوئے نظرآئی۔ یہاں تک کہ اقلیتی امورکی وزارت اورمدرسہ ٹیچرس اسکیم کا بجٹ نہیں بڑھایا گیا تو وہیں مولانا آزاد فاونڈیشن کے بجٹ میں تخفیف کردی گئی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اسکالرشپ کے بجٹ میں بھی کٹوتی کی گئی ہے۔

مولانا آزاد فاونڈیشن کا بجٹ 123 کروڑ سے گھٹا کر90 کروڑ کردیا گیا ہے۔ مولانا آزاد فیلو شپ کا بجٹ 155 کروڑ سے 153 کروڑکردیا گیا۔ پری میٹرک اسکالرشپ کا بجٹ 1269 کروڑ سے 1220 کروڑ کیا گیا۔ پوسٹ میٹرک اسکالرشپ کا بجٹ گھٹا کر500 کروڑ سے 496 کروڑ کیا گیا ہے۔ میرٹ کم مینس اسکالرشپ کا بجٹ 402 کروڑ سے 366 کروڑکیا گیا ہے۔ پردھان منتری جن وکاس پروگرام کے تحت گزشتہ سال کے 1319 کروڑ روپئے کے مقابلے میں اس سال 1469 کروڑ روپئے خرچ کئے جانے کا منصوبہ ہے۔

مودی حکومت کی خاتون وزیرمالیات نرملا سیتا رمن نے اپنا پہلا بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کیا۔ کسانوں، متوسط طبقے اورخواتین کو لے کرلبھانے والے اعلانات اورٹیکس کو لے کرچھوٹ کی امید کی جارہی تھی، لیکن حکومت نے ان تمام چیزوں سے دوری بنائی اورٹیکس کو لے کرکئی سخت فیصلے کئے وہیں دوسری طرف ‘سب کا ساتھ ، سب کا وکاس’ کا نعرہ حکومت کے بجٹ میں پیچھے چھوٹتا ہوا نظرآیا۔ اقلیتی امورکے وزرات کا بجٹ اس سال 4700 کروڑ پرہی ٹھہرا رہا۔ حالانکہ وزات کی کئی اسکیموں کے بجٹ میں تخفیف اوراضافہ کیا گیا ہے۔ خاص طورپراسکالرشپ کے بجٹ میں تخفیف کردی گئی، تو وزیراعظم جن وکاس اسکیم کے تحت بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے۔

عام بجٹ 2019 کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اقلیتی امورکی وزارت میں تخفیف نہیں کی گئی ہے اوریہ بجٹ آئندہ 6 ماہ کے لئے کیونکہ فروری میں حکومت دوبارہ سے بجٹ پیش کرے گی، لیکن بجٹ کا ایک منفی پہلو یہ بھی رہا کہ وزارت برائے انسانی وسائل کی ترقی کے تحت چلنے والی مدرسہ ٹیچرس اسکیم کا بجٹ بھی اس بارنہیں بڑھایا گیا۔ بجٹ میں بھی مدرسہ اسکیم کا بجٹ 120 کروڑ روپئے رکھا گیا ہے۔ اس کے بعد سوال یہ ہے کہ اس اسکیم کے تحت صرف اترپردیش کے 30,000 سے زیادہ مدارس ٹیچرکیسے اپنا ہزارکروڑ سے زیادہ کا بقایا تنخواہ پانے کی امید کرسکتے ہیں اوراس اسکیم کے تحت مدرسوں میں جدید تعلیم کا خواب کیسے پورا ہوسکتا ہے۔ بجٹ پرمسلم اراکین پارلیمنٹ کا سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔

اترپردیش کے سنبھل سے سماجوادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر شفیق الرحمن برق نے بجٹ کو عوام مخالف بتایا اورملک مخالف قرار دیتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں کچھ بھی خاص نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتی طبقے کے لئے بجٹ انتہائی مایوس کن ہے کیونکہ کچھ بھی نہیں دیا گیا جبکہ آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ کے صدراور رکن پارلیمنٹ مولانا بدرالدین اجمل نے کہا کہ اقلیتی طبقے کے لئے بجٹ کو لالی پاپ بتاتے ہوئے بتاتے ہوئے کہا کہ 4700 کروڑ روپئے کے بجٹ میں کیسے ایک کروڑاسکالر شپ دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ خاتون وزیرمالیات نے بجٹ بہترطریقے سے پارلیمنٹ میں پیش کیا اوراراکین پارلیمنٹ نے ان کا استقبال کیا۔ بدرالدین اجمل نے کہا کہ ‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس’ کے ساتھ ساتھ سب کے ساتھ انصاف کو بھی حکومت اپنائے کیونکہ بجٹ میں اقلیتی طبقے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ وہیں اس معاملے میں این ڈی اے کے واحد مسلم رکن پارلیمنٹ محبوب علی قیصر نے کہا کہ بجٹ اچھا ہے، دیہات، گاوں اورغریب کے لئے راحت ہے، امیروں پرٹیکس لگایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک کروڑ اسکالرشپ دینے کی بات حکومت نے کی ہے، اس لئے یہ بجٹ سب کا وشواس جیتنے کی طرف اٹھایا گیا قدم ہے۔ قابل ذکرہے کہ گزشتہ سال حکومت نے تقریباً 54 لاکھ اسکالرشپ دی تھی اور1300 کروڑ روپئے سے زیادہ فنڈ خرچ کیا گیا تھا۔ ایسے میں بڑا سوال یہ ہے کہ حکومت اتنے بڑے اعلان کو کیسے پورا کرے گی اورفنڈ کہاں سے آئے گا؟