50 شخصیتوں کے خلاف ایف آئی آر

   

زندگی کے زخم کیا ہیں ہم سے مل کر پوچھیئے
ہم بھی اک حصہ رہے ہیں کل کے حادثات کا
50 شخصیتوں کے خلاف ایف آئی آر
ہندوستان میں سماجی و اخلاقی زوال کے انتہائی تکلیف دہ واقعات دیکھنے میں آرہے ہیں۔ ہجومی تشدد برپا کرنے والوں کو کھلی چھوٹ، انسانوں کو بے وجہ ہلاک کرنے والے آزاد گھوم رہے ہیں لیکن ان واقعات کے خلاف لب کشائی کرنے والوں کو قانون کے شکنجے میں کسا جارہا ہے۔ ہجومی تشدد کے خلاف وزیراعظم نریندر مودی کو مکتوب لکھنے والے 50 اہم شخصیتوں کے خلاف مظفرپور میں ایف آئی آر درج کیا گیا ، ملک کو فرقہ وارانہ سوچ میں غرق کرنے والی کارروائیوں نے مہذب معاشرہ کے سیکولر عوم کو تشویش میں مبتلاء کردیا ہے۔ فرقہ پرستوں نے سیکولر کردار کو خاکستر کرنے کا سارا بندوبست کرلیا ہے۔ ان خاکستروں نے ہندوستان کی ہنستی کھیلتی سیکولر زندگی میں المناک صورتحال پیدا کردی ہے مگر فرقہ پرستوں کی سازشوں سے ہونے والی سماجی زوال چاہے کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو ہندوستانی معاشرہ سیکولر ذہن کی حامل مثالی شخصیتوں سے یکسر خالی نہیں ہوا ہے۔ کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے بی جے پی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ نریندر مودی حکومت کے خلاف جو کوئی لب کشائی کرتا ہے اسے سلاخوں کے پیچھے ڈالا جاتا ہے۔ یہ حرکتیں ملک کو مطلق العنان مملکت کی طرف لے جارہی ہیں۔ ہر کوئی باخبر ہے کہ مرکزی حکومت کیا چاہتی ہے۔ ہندوستان کی سیکولر ساکھ کو تباہ کرنے والوں نے دنیا بھر میں ہندوستان کو رسواء کرنے کی کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ وزیراعظم مودی کو ماہ جولائی میں لکھے گئے اس مکتوب میں 50 اہم شخصیتوں نے صرف اپیل کی تھی اس مکتوب سے ملک کا امن درہم برہم نہیں ہوگا لیکن ایف آئی آر درج کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ مکتوب لکھنے والوں نے ملک سے غداری کی ہے اور یہ شخصیتیں ملک کیلئے خطرہ ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ ایف آئی آر درج کس نے کروائی۔ سوال یہ ہیکہ ایف آئی آر کس نے قبول کی ہے۔ آیا سرکاری ادارہ اب اس کام کیلئے استعمال کئے جارہے ہیں۔ ہجومی تشدد کرنے والوں کے خلاف کوئی ایف آئی آر نہیں صرف تشدد کو روکنے کیلئے وزیراعظم سے اپیل کرنا ملک کے خلاف غداری متصور ہورہا ہے تو یہ ہندوستان کیلئے بڑا المیہ ہے۔ بالی ووڈ کی شخصیتوں، سماجی نمائندوں، ادیبوں اور شاعروں نے مسلمانوں، دلتوں اور دیگر اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کو روکنے کی درخواست کی تھی لیکن اس بے ہنگم سوسائٹی میں کسی فرد کی عزت وقار محفوظ نہیں ہے۔ ان شخصیتوں کے ساتھ جو ایف آئی ار درج ہوا ہے اس ایف آئی آر نے سیکولر عوام کو یہ احساس دلایا ہیکہ ملک میں اب کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ مودی حکومت کی جانب سے دستور کے بعض آرٹیکلس کو اپنے مطلب کیلئے استعمال کیا جارہا ہے جبکہ دستور کے آرٹیکل 19 نے شہریوں کو اظہارخیال کی آزادی دی ہے۔ راہول گاندھی نے مودی حکومت کی ان حرکتوں کو ملک کیلئے نقصاندہ قرار دیا کیونکہ ملک میں دو نظریات ہیں جس میں ایک ایسے خیال کو بڑھاوا دیا گیا ہے کہ قوم پر ایک شخص، ایک نظریہ کی حکمرانی ہونی چاہئے۔ ہندوستان کے عوام پر ایک نظریہ کو مسلط کرنے کی سازش پر تیزی سے عمل آوری ہورہی ہے۔ ملک کا اقتدار حاصل کرنے والوں نے یہ سمجھ لیا ہیکہ وہ جو چاہتے کرسکتے ہیں لیکن ان کا یہ خیال اور سوچ ملک کے مستقبل کیلئے ٹھیک نہیں ہے۔ اہل اقتدار نے ایسی افراتفری پھیلادی ہے کہ اس کو سامنے کی چیز بھی نظر نہیں آرہی ہے۔ حکومت ہر اس فر کو راستے سے ہٹانا چاہتی ہے جو حق کیلئے آواز اٹھاتے ہیں۔ ملک کے دستور کی دہائی دیتے ہیں۔ یہی صورتحال برقرار رہی تو ملک میں پھر علحدگی پسند رجحانات کو ہوا ملے گی۔ اس کے بعد حکومت کے کارندوں کی بددماغی اور نالائقی سے جو واقعات پھوٹ پڑیں گے وہ تشویشناک حد تک غیرتسلی بخش ثابت ہوں گے۔ عام شہری اگر ناقابل برداشت مشکلات کا شکار ہوجائے تو پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس ملک کو بچانے کیلئے سیکولر عوام متحد ہوں گے۔ ہونا بھی یہی چاہئے سیکولر پارٹیوں، سیکولر ادیبوں، سیکولر دانشوروں اور سیکولر عوام کو مل کر فرقہ پرستوں کے خلاف منظم تحریک شروع کرنا مناسب اور ثمرآور ہوگا۔ فرقہ پرستوں کو ملک کے مستقبل سے کھلواڑ کرنے کی مزید اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔
بینکوں میں مالیاتی بحران
ہندوستان کا مالیاتی نظام بد سے بدترحالت میں ہے۔ بینک کھاتے داروں کی جمع شدہ رقم نکالنا بھی دشوارکن بن گیا ہے۔ پنجاب اینڈ مہاراشٹرا کوآپریٹیو بینک (پی ایم سی) بینک بحران نے ملک کی مالیاتی اداروں کی شبیہہ متاثر کردی ہے۔ اس سے پہلے بھی بینکوں میں ہونے والی دھاندلیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔ پی ایم سی بینک کیس میں معاشی جرم پر قابو پانے والے شعبہ کے عہدیداروں نے ڈائرکٹرس سارنگ دھوانی اور راکیش ودھوانی کو گرفتار کرلیا ہے اور ان کی 35 بلین روپئے کی لاگت والی جائیداد کو بھی قرق کرلیا لیکن اس سے معصوم بینک کھاتے داروں کی پریشانیوں میں اس وقت تک کمی نہیں آئے گی تاوقتیکہ ان کی جمع شدہ رقم مل جائے۔ ایچ ڈی آئی ایل (HDIL) نامی کمپنی کے دیوالیہ ہونے کے بعد 6500 کروڑ روپئے کا گھٹالہ سامنے آیا ہے۔ بینک کی جانب سے بعض کمپنیوں کو قرض فراہم کیا گیا تھا اور یہ قرض بے قاعدگیوں اور بدعنوانیوں کے ذریعہ منظور کیا گیا نتیجہ میں جن کمپنیوں نے قرض لیا تھا وہ دیوالیہ کا شکار ہوگئیں یا انہیں دیوالیہ ثابت کیا گیا تاکہ رقومات میں الٹ پھیر کرنے والوں کو کھلی چھوٹ مل سکے۔ ہندوستان میں کئی کوآپریٹیو بینک کام کررہے ہیں جہاں کالے دھن کو سفید کرنے والے کھاتے داروں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ یہ بینک آر بی آئی کی نگرانی سے دور ہوتے ہیں۔ بینک کے اصولوں کے مغائر کام کرنے والے کوآپریٹیو بینکس دراصل اپنے امیر کھاتے داروں کا تحفظ کرتے ہوئے غریب کھاتے داروں کو پریشان کرتے ہیں۔ آر بی آئی نے اگرچیکہ رقمی لین دین اور مالیاتی امور کیلئے اہم اصول و ضوابط وضع کئے ہیں لیکن کئی بینکس خاص کر کوآپریٹیو بینک، آر بی آئی کی آنکھوں میں دھول جھونک کر خسارہ کا سودا کرلیتے ہیں جس کی وجہ سے مالیاتی بحران پیدا ہوتا ہے۔ کھاتے داروں کا بینکوں پر سے اعتماد و بھروسہ اٹھ رہا ہے۔ آر بی آئی کو ہی پہل کرتے ہوئے اس طرح کے مالیاتی بحران پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ بینکنگ اور مالیاتی سسٹم میں ڈپازیٹرس کے اعتماد کو بحال کرنا ضروری ہے۔ آر بی آئی کو ان بینکوں میں اصلاحات لانے کیلئے سخت محنت کرنی ہوگی کیونکہ چھوٹے اور غریب کھاتے داروں کی زندگی کی جمع پونجی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔