G20 کے وزرائے خارجہ عالمی مسائل کا حل تلاش کرنے کوشاں

   

یوکرین ۔روس جنگ بند کرنے پر سب سے زیادہ توجہ، روسی وزیرخارجہ سرگئی لاروف کی ظہرانے میں عدم شرکت

جکارتہ : انڈونیشی جزیرے بالی میں G20 وزرائے خارجہ کا اجلاس جاری ہے۔ جہاں دنیا کے امیر ترین اور سب سے زیادہ ترقی پذیر ممالک یوکرین میں روسی جنگ اور اس کے عالمی اثرات سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حل تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ایک مغربی عہدیدار کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے G20 کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ماسکو سے کہا کہ وہ یوکرین کو اپنا اناج دنیا کے دیگر ملکوں میں بھیجنے کی اجازت دے۔مذکورہ افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بلنکن نے روس کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا،”میں اپنے روسی ہم منصب سے کہنا چاہتا ہوں کہ یوکرین آپ کا ملک نہیں ہے۔ اس کے اناج آپ کے نہیں ہیں۔ پھر آپ نے بندرگاہوں پر انہیں کیوں روک رکھا ہے؟ آپ ان اناجوں کو باہر جانے دیں۔‘‘روسی وزیر خارجہ کا قبل از وقت واپسی کا اعلاناس اجلاس میں شرکت کے لیے روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف بھی بالی پہنچے تھے مگر بعد میں کہا گیا کہ وہ G20 اجلاس کی باقاعدہ نشستوں میں حصہ نہیں لیں گے۔ دریں اثناء￿ روسی وزارت خارجہ کی ترجمان نے بتایا کہ لاروف نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ G20 کے وزارتی اجلاس کی آج سہ پہر ہونے والی باقاعدہ میٹنگ اور اس سے قبل ظہرانے میں بھی شریک نہیں ہوں گے۔ ترجمان کے مطابق روسی وزیر خارجہ کو بالی میں دوطرفہ ملاقاتوں اور پھر صحافیوں سے گفتگو کے بعد واپس لوٹ جانا تھا۔ اس سے پہلے امریکی اور جرمن وزرائے خارجہ نے لاوروف کے ساتھ دوطرفہ ملاقاتوں کو خارج از امکان قرار دے دیا تھا۔ سیرگئی لاوروف نے بالی سے روانگی سے قبل صحافیوں کو بتایا کہ وہ بھی امریکی ہم منصب بلنکن سے ملنے کے لیے ان کے پیچھے پیچھے نہیں دوڑتے پھریں گے۔ لاوروف کا کہنا تھاکہ اگر مغربی ممالک کو یہ امید ہے کہ وہ روس کو میدان جنگ میں شکست دینے کے لیے یوکرین کی مدد کریں گے تب تو ہمارے لیے مغرب کے ساتھ بات چیت کی کوئی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی ہے۔انڈونیشیا کی وزیر خارجہ ریٹنو مرصودی نے اپنے افتتاحی کلمات میں کہا کہ جتنی جلد ممکن ہوجنگ کو ختم کرانا اور میدان جنگ کی بجائے مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر اختلافات کو دور کرانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انڈونیشیا کے لیے یہ بہت اہم ہے کہ وہ اس سمٹ کی میزبانی کررہا ہے تاکہ ’’ہر شخص کے لیے ایک آرام دہ ماحول پیدا کیا جاسکے‘‘۔مغربی ممالک اور جاپان کے رہنماؤں کے اعتراضات کے باوجود روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اجلاس میں شرکت کی۔ جاپانی وزیر خارجہ یوشی ماسا ہایاشی لاوروف کی موجودگی کے خلاف بطور احتجاج استقبالیہ تقریب میں شریک نہیں ہوئے۔ مرصودی نے اس حوالے سے کہا کہ جی سیون کے وزرائے خارجہ جمعرات کے روز استقبالیہ ضیافت میں شریک نہیں ہوسکے جس میں لاوروف موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ جکارتہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے اور ان کے فیصلوں کا احترام کرتا ہے۔