آذر بائیجان ۔ آرمینیا جنگ بندی

   

میں فردِ جرم بھی عائد کروں کس پہ کروں
ہر ایک چہرہ مرے مہربان سے ملتا ہے
آذر بائیجان ۔ آرمینیا جنگ بندی
آذر بائیجان اور آرمینیا کے درمیان جنگ بندی کا عارضی مرحلہ ایک دوسرے پر الزامات کے ساتھ ختم ہوگیا ۔ دونوں ملکوں نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شہری علاقوں میں شلباری کی ہے تو گذشتہ دو ہفتوں سے جاری شدید جھڑپوں میں کوئی کمی کی گنجائش پیدا نہیں کی گئی ۔ روس نے دونوں ملکوں کو بات چیت کی میز پر لانے اور جنگ بندی کرانے کی کوشش کی تھی ۔ روس کے لیے اس کے دو پڑوسی ملکوں کے درمیان کشیدگی ایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔ آذربائیجان کو اپنے علاقہ ناگور فوکارا باخ کو حاصل کرنے کے لیے شدید جدوجہد کرنی پڑرہی ہے ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ سال 90 ء کے دہے میں ہی کارا باخ نے آذر بائیجان سے خود ساختہ علیحدگی اختیار کی تھی جسے آج تک کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا ۔ آذر بائیجان کو اپنے اس علاقہ پر ہورہی آرمینیائی زیادتیوں کی فکر لاحق ہے ۔ اس نے عارضی جنگ بندی بھی اسی غرض سے کی تھی تاکہ قیدیوں اور لاشوں کو منتقل کیا جاسکے ۔ کارا باخ پر اپنا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش میں آذر بائیجان نے کئی قربانیاں دی ہیں ۔ اب تک 450 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں ۔ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ بین الاقوامی طور پر ناگورنو کارا باخ کو آذر بائیجان کا حصہ مانا جاتا ہے لیکن آرمینیا کے ساتھ جنگ کے بعد اس علاقہ کا کنٹرول آرمینیا کے پاس چلا گیا ۔ اس لیے آذر بائیجان کو اپنا علاقہ حاصل کرنے کے لیے سخت کوشش کرنی پڑ رہی ہے ۔ آذر بائیجان ان 7 مسلم ممالک میں سے ایک ہے جو سوویت یونین کے بکھر جانے کے بعد علحدہ ہوئے تھے ۔ آذر بائیجان کی اکثریتی آبادی مسلمانوں کی ہے ۔ اس لیے روس اور آرمینیا کے درمیان دوستی نے آذر بائیجان کو یکا و تنہا کردیا ہے ۔ آذر بائیجان کی مدد کے لیے جب ترکی نے اپنی فوج روانہ کی تھی اس مسئلہ کو دوسرا رخ دینے کی کوشش کی جارہی ہے جب کہ آرمینیا میں روس نے اپنا فوجی اڈہ قائم کیا ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ روس نے آذر بائیجان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھے ہیں لیکن آر مینیا کے ساتھ اس کی گہری دوستی کی وجہ سے روس نے آذر بائیجان کو جنگ بندی کے لیے راضی کرانے کی کوشش کی اور چند گھنٹوں کے لیے جنگ بندی ہوئی مگر آرمینیائی فوج نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شہری علاقوں کو نشانہ بنایا ۔ ساری دنیا کی بڑی طاقتوں نے دیکھا ہے کہ جنگ بندی کے لیے ماسکو میں دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کے دوران بھی آرمینیائی فوج نے آذر بائیجان کے شہری علاقوں کو نشانہ بنایا ۔ اس خطہ میں ایک عرصہ تک علاقائی تنازعہ نے اب کشیدگی کو ہوا دی ہے ۔ ایسے میں ترکی نے آذر بائیجان کی مکمل حمایت کی ہے تو اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ آرمینیا کو چاہئے تھا کہ وہ آذر بائیجان کی سرزمین کو فوری خالی کردیتا تھا ۔ جب کوئی ملک ناحق کسی دوسرے ملک کے علاقہ پر قبضہ کرے تو یہ عالمی اصولوں کے مغائر ہوتا ہے ۔ ترکی نے اس حوالے سے آذر بائیجان کی حمایت کی ہے ۔ ترکی نے اس سے پہلے بھی شام اور لیبیا میں مداخلت کی تھی ۔ عراق میں کردستان و رکرز پارٹی کے خلاف بھی کارروائیاں کی تھیں ۔ مشرقی بحیرہ روم میں بھی ترکی نے اپنا اثر دکھایا ہے ۔ ترکی اور آذر بائیجان کے درمیان ثقافتی رشتہ ہے ۔ آذر بائیجان کے مظلوم عوام کو موجودہ حالات سے چھٹکارہ دلانے کے لیے عالمی قائدین کو غیر جانبدارانہ رول ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ ترکی جنوبی قفقاز میں بھی پیدا ہونے والے تنازعات کو ختم کرانے میں مصروف ہے تو اس طرح کی بھی کوششوں کی ستائش ہونی چاہئے لیکن آذر بائیجان کے حوالے سے ترکی کو بعض ملکوں کی تنگ نظری کا سامنا ہے تاہم روس ، ایران ، یوروپی یونین اور امریکہ نے دونوں ملکوں آذر بائیجان اور آرمینیا سے تحمل سے کام لینے پر زور دیا ہے اس سلسلہ میں مزید کوشش ہونی چاہئے ۔۔