مذکورہ نظام کو پاکستان کے ساتھ شامل ہونے یا پھر ہندوستان کے ساتھ رہنے کی دشواری کاسامنا تھا اس وقت میں یہ فنڈس 1948کے دوران منتقل کئے گئے تھے‘ جس کی واپسی کے مبینہ طور پر درخواست نٹ ویسٹ بینک سی کی تھی جہاں پر اس وقت کے پاکستان ہائی کمشنر کے لندن بینک اکاونٹ کے نام پر یہ رقم جمع تھی
لندن۔ لندن کے بینک اکاونٹ میں 1947کے وقت تقسیم ہند کے دوران نظام آف حیدرآباد کی جمع شدہ رقم کے متعلق دہوں سے چل رہی قانونی لڑائی میں یوکے ہائی کورٹ کے ایک جج نے ہندوستان کے حق میں فیصلہ سنایاتھا‘ اسی عدالت نے جمعرات کے روز پاکستان کو احکامات جاری کرتے ہوئے کہاکہ قانونی چارہ جوئی پر خرچ لاکھوں پاونڈس ادا کریں۔
مذکورہ نظام کے وارثین پرنس مکرم جاہ اٹھویں نظام کے جانشین اور ان کے چھوٹے بھائی مفخم جاہ نے پاکستان حکومت سے ساتھ قانونی لڑائی میں ہندوستان کے ساتھ ہاتھ ملایا تھا جو لندن کی نٹ ویسٹ بینک میں رکھے جی بی پی 35ملین کے ارد گرد کی رقم کی واپسی کے متعلق تھا۔
سالوں سے چل رہی قانونی لڑائی میں جسٹس مارکوس سمیت نے اکٹوبر میں فیصلہ سنایاتھا کہ مذکورہ ”نظام ہشتم اس فنڈ کے حق دار ہیں اور وہ لو گ جو نظام کے حقوق کے دعویدار ہیں‘ شہزادی اور ہندوستان‘ رقم کی ادائی کے حقدار ہیں“۔
جمعرات کے روزشاہی عدالتوں کے لندن میں جسٹس نے ”نتیجہ خیز سنوائی“ کے اختتام پر فیصلہ سنایا‘ جسٹس سمتھ اپنی بات کااختتام پاکستان کو 65فیصد قانونی لڑائی پر خرچ پیسے کی ادائی پر کیا‘ اور کہاکہ اگر معاہدے قطعی رقم تک رسائی نہیں کرتا ہے تواس کی تفصیلی جانچ کی جائے۔
اٹھویں نظام کے لئے قانونی کاروائی انجام دینے والے ادارے ویتھرس ایل ایل پی اوراس کے ساتھی پاؤل ہویٹ نے کہاکہ”سال2013میں شروع ہوئے تنازعہ کو سامنے لانے والی آج کی سنوائی تھی مگر اس کی شروعات 1948کی قدیم تاریخ میں ہوا تھا‘ جس کا اختتام اب عمل میں آیاہے“۔
انہوں نے کہاکہ ”ہمیں خوشی ہے کہ پاکستان نے مسٹر جسٹس اسمتھ کے فیصلے کا مقابلہ نہ کرنے کا فیصلہ کیاہے۔
ہماری موکل عزت مآب مذکورہ اٹھویں نظام کی مذکورہ فنڈس تک رسائی حاصل ہوگئی ہے جو ان کے دادا کے ہیں‘ اور ایچ ای ایچ نظام ہشتم کی منشاء بھی یہی تھی“۔
قانونی چارہ جوئی کے احکامات کے حصہ کے طور پر جی پی بی ارڈر367,387.90سے متعلق اخراجات نٹ ویسٹ بینک کے ہیں جہاں پر 70سالوں سے فنڈس روکے ہوئے ہیں۔
جبکہ بینک کے اخراجات فنڈس سے پہلے ہی ادا ہوچکے ہیں‘ پاکستان کو ان اخراجات کے سلسلے میں فنڈ کی تازہ تشکیل عمل میں لانا چاہئے۔
مذکورہ نظام کو پاکستان کے ساتھ شامل ہونے یا پھر ہندوستان کے ساتھ رہنے کی دشواری کاسامنا تھا اس وقت میں یہ فنڈس 1948کے دوران منتقل کئے گئے تھے‘
جس کی واپسی کے مبینہ طور پر درخواست نٹ ویسٹ بینک سی کی تھی جہاں پر اس وقت کے پاکستان ہائی کمشنر کے لندن بینک اکاونٹ کے نام پر یہ رقم جمع تھی۔
طویل مدت سے چل رہی قانونی جنگ کا اختتام پچھلے مرتبہ سنائے گئے فیصلے پر ہوا‘ جو حکومتہند اور پرنسوں اور ریاست دکن کے انتظامیہ کے درمیان میں تفریق کے باوجود پچھلے سال پیش ائے معاہدے کی وجہہ سے ہوا ہے