لکھنو۔سارے ملک میں صرف دو مسلم سیاسی جماعتیں ہیں‘ مسلم لیگ اور کل ہند مجلس اتحادا لمسلمین(اے ائی ایم ائی ایم) حیدرآباد کی وہیں مسلم لیگ کا مواد کیرالا کی سیاست تک محدود ہے‘ جبکہ مذکورہ اے ائی ایم ائی ایم نے سارے ملک بھر میں اپنے پیروں کے نقوش بڑھارہی ہے۔
اے ائی ایم ائی ایم نے لوک سبھا‘ اسمبلی اور میونسپلوں سیٹوں پر بھی مہارشٹرا میں جیت حاصل کی ہے۔ پچھلے سال انہیں اپنی پہلی کامیابی بہار میں نصیب ہوئی ہے۔ مگر حالیہ عرصہ میں مغربی بنگال میں ہوئی اسمبلی انتخابات میں اپنا اکاونٹ کھولنے میں یہ پارٹی ناکام رہی ہے۔
اس خیال ہے کہ مسلمانوں کو دلتوں‘ سکھوں اور دیگر گروپس کے برعکس اپنی کمیونٹی کی ایک خصوصی سیاسی جماعت نہیں بنانا چاہئے۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ہندوؤں کو حمایت کسی بھی دائیں بازو پارٹی کے لئے ہوگی جو ایک بڑے مفاد کے لئے نقصاندہ ثابت ہوسکتی ہے۔
اویسی نے پہلے ہی اعلان کیاہے کہ بھاگیاداری سنکلپ مورچہ(بی ایس ایم) ایک اتحاد جس کی قیادت سابق منسٹر اوم پرکاش راجہار کررہے ہیں کے ساتھ ملکر اترپردیش کے 403سیٹوں میں 100پر امیدوار کھڑا کرنے کا پہلے ہی اعلان کیاہے۔
اس مورچہ میں نو مختلف چھوٹی سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔یوپی اسٹیٹ اسمبلی انتخابات فبروری 2020میں متوقع ہیں۔ اے ائی ایم ائی ایم کے سربراہ اسدالدین اویسی یوپی میں بڑی سیاسی جماعتیں جیسے سماج وادی پارٹی یا بہوجن سماج پارٹی کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
مگر اب تک اس طرح کا کسی اتحاد کی توثیق نہیں کی گئی ہے۔اس خوف کے ساتھ اس طرح کااتحاد اے ائی ایم ائی ایم کے ساتھ فرقہ وارانہ پولرائزیشن کو فروغ ملے گا اور ہندو رائے دہندے انہیں چھوڑ سکتے ہیں۔
اترپردیش میں کئی ایسے مسلمان ہیں کو اویسی کو یوپی اسمبلی انتخابات میں کہتے ہیں کہ مقابلہ نہ کریں کیونکہ اس سے ان کے ووٹ تقسیم ہوجائیں اور بی جے پی کو فائدہ ہوگا۔
انہوں نے الزام لگایاہے کہ وہ اے ائی ایم ائی ایم کا منصوبہ یوپی انتخابات میں مقابلہ کرنا مذکورہ پارٹی کے ساتھ خفیہ اتحاد کا حصہ ہے اور بی جے پی مسلم ووٹوں کی تقسیم کرے گا۔
مولانا جرجیس انصاری معروف اسلامی اسکالر نے مشورہ دیاکہ بی جے پی حکومت اویسی کے ساتھ خفیہ ساز باز کی وجہہ سے نرم رویہ اختیار کئے ہوئے ہے تاکہ وہ فرقہ وارانہ خطوط پر رائے دہندوں کو پولرائز کریں۔
انصاری نے کہاکہ”جب بی جے پی حکومت اعظم خان کو سلاخوں کے پیچھے ڈال سکتی ہے اور ان کی یونیورسٹی بندکرسکتے ہیں تو بی جے پی اویسی کے ساتھ رحمدلی کا مظاہرہ کیوں کررہی ہے“
یہاں پر دوسرے اترپردیش میں مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے یوپی انتخابات میں اے ائی ایم ائی ایم کا داخلہ غلط نہیں ہے۔مولانا سلمان ندوی نے کہاکہ ”تمام سیاسی جماعتیں مسلمانوں کے ووٹوں کا استعمال کرتے ہیں اور کمیونٹی کے لئے کچھ بھی نہیں کرتے ہیں“۔
انہوں نے الزام لگایاکہ بی ایس پی نے نسیم الدین کا استعمال کیا اور انہیں نکال پھینکا۔ سماج وادی پارٹی اعظم خان کی وجہہ سے اپنے پیروں پر کھڑی ہوئی جوکہ یوپی میں ایک قدآور لیڈر ہیں۔
مگر سماج وادی پارٹی ان کی خراب صحت کی وجہہ سے ان کے ساتھ کھڑی نہیں رہ رہی ہے۔
اس میں کوئی غلطی نہیں ہے یوپی میں اگر مسلمان ووٹ اویسی کی پارٹی کو دیتے ہیں“۔
حال ہی میں پارلیمنٹ کے باہر میڈیا کے لوگوں کے سوالات کاجواب دیتے ہوئے اویسی نے کہا ہے کہ ”ہم سیاسی حصہ داری اور یوپی میں خود مختار مسلم قیادت چاہتے ہیں“۔
اویسی نے کہاکہ ”ہم نے محسوس کیاہے کہ کسی بھی کمیونٹی کے امیدوار کا انتخاب اسمبلی اورپارلیمنٹ کے لئے ہوتا ہے تو اس کمیونٹی کی ترقی ہوتی کیونکہ یوپی میں خود مختار مسلم قیادت نہیں ہے‘ جو یوپی سے امیدوار انتخابات جیتے ہیں اسمبلی اورپارلیمنٹ میں خاموش اور گونگے ہوجاتے ہیں۔
ہم یوپی میں زمینی سطح سے مسلم قیادت کو ابھارنا چاہتے ہیں“۔
اس پر آ پ کی کیارائے ہمیں اپنے تبصرے سے ذریعہ بتائیں