شیشہ و تیشہ

شیشہ و تیشہ

مزمل گلریزؔ آج بھی ہے …!! اچھے دنوں کا انتظار آج بھی ہے پچاس ہزار کیلئے سبھی بیقرار آج بھی ہے پہلے جو کھاتے تھے اس میں نہیں کوئی تبدیلی

شیشہ و تیشہ

ْجھانپڑؔ شمس آبادی غزل…! نیّا ہمارے دیش کی ڈوبی ہوئی ملے نیتا ہمارے دیش کو سب کنتری ملے سُسرال میں ہے میری تواضع کچھ اس طرح باسی کڑی ملے کبھی

شیشہ و تیشہ

سید اعجاز احمد اعجازؔ شادی کے بعد …!! میاں بیوی میں وہ محبت نہیں ہے ہوئے جو پرانے تو چاہت نہیں ہے اکیلے تھے جب تو تھے آزاد ہم بھی

شیشہ و تیشہ

نجیب احمد نجیبؔ ناس کردیا …!! پٹرول اور ڈیزل تو سدا بام پر رہے اَسّی روپئے کلو میں ٹماٹر مٹر رہے عام آدمی کے ہوش ٹِھکانے کدھر رہے گردش میں

شیشہ و تیشہ

ڈاکٹر خواجہ فریدالدین صادقؔ مزاحیہ غزل (پیاز) کیسے ہم کو رُلارہی ہے پیاز دل کو کیسے دُکھا رہی ہے پیاز سونے چاندی کو کس نے دیکھا ہے اب تو منہ

شیشہ و تیشہ

شبیر علی خان اسمارٹؔ جعلی ڈاکٹروں سے معذرت کیساتھ مجھ سا ان پڑھ بھی جب بن گیا ڈاکٹر لوگ کہتے ہیں خودساختہ ڈاکٹر وہ تو پی ایچ ڈی کرکے بنا

شیشہ و تیشہ

ڈاکٹر عزیز فیصل مزاحیہ غزل ناصر کاظمی کی غزل کے مصرع ثانی پر گرہ سازی دم بشیراں کا بھر نہ جائے کہیں ’’تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں‘‘

شیشہ و تیشہ

مرزا یاور علی محورؔ نجات …!! ظالم نے ظلم کو ہی طریقہ سمجھ لیا فرمان دے کے اُسکو عریضہ سمجھ لیا احساس کمتری کا مرض اس قدر بڑھا اُس سے

شیشہ و تیشہ

یاور علی محورؔ بیگم …! برسرِروزگار ہے بیگم اک بڑی عہدہ دار ہے بیگم زندگی ہے فقط طفیلی سی اُس کا دارومدار ہے بیگم ………………………… محمد حامد(سلیم) مرغا…!! اک دل

شیشہ و تیشہ

سرفراز شاہدؔ مقبول ڈپلومیٹ…!! زمانے میں وہی مقبول ’’ ڈپلومیٹ ‘‘ ہوتا ہے جو منہ سے ’’ دِس ‘‘ کہے تو اس کا مطلب ’’دَیٹ‘‘ ہوتا ہے عوام الناس کو

شیشہ و تیشہ

محسن نقویؔ دشمن …!! آرائش مذاقِ جنوں اِس طرح کرو گنجائشِ رفو بھی ہو دامن کے چاک میں باھم نظر چُراکے گزرتے رہو مگر اتنا رہے خیال کہ دشمن ہے

شیشہ و تیشہ

اقبال شانہؔ مزاحیہ غزل فرض ہم اپنا نبھاکر سوگئے پاؤں بیگم کے دباکر سوگئے سورہے ہیں وہ پلنگ پر اور ہم فرش پر بستر بچھاکر سوگئے گونج اُٹھا اُن کے

شیشہ و تیشہ

انورؔ مسعود ہتک…! کل قصائی سے کہا اِک مفلسِ بیمار نے آدھ پاؤ گوشت دیجئے مجھ کو یخنی کے لئے گْھور کر دیکھا اُسے قصاب نے کچھ اس طرح جیسے

شیشہ و تیشہ

پاپولر میرٹھی پٹ گئے ! نیر ، جمال ، اشرف و آعظم بھی پٹ گئے کوئے بتاں میں شیخ مکرم بھی پٹ گئے دیوانے پن میں قبلۂ عالم بھی پٹ

شیشہ و تیشہ

مرزا یاور علی محورؔ شامت …!! پوچھا بیگم سے تم کو سوتن کی کیا ضرورت نظر نہیں آتی بولی آتی ضرور آتی ہے تم کو شامت نظر نہیں آتی ………………………

شیشہ و تیشہ

ماجدؔ دیوبندی اُردو زبان …! نفرتوں کی فضاؤں میں رہ کر پیار کا آسمان رکھتے ہیں جس کے نعروں سے پائی آزادی ہم وہ اُردو زبان رکھتے ہیں ……………………… مرزا

شیشہ و تیشہ

مرزا یاور علی محورؔ مہمان کی طرح …!! سب جان کے بھی ہوگیا انجان کی طرح اپنے وطن میں رہتا ہے مہمان کی طرح موقع جو مل گیا ذرا دنیا

شیشہ و تیشہ

’’آثار…‘‘ مُلک لُٹ جائے گا آثار نظر آتے ہیں سارے مسند نشین مکار نظر آتے ہیں ہم نے اس ملک کی دھرتی سے محبت کی ہے پھر بھی اندھوں کو

شیشہ و تیشہ

فرید سحرؔ سسرے کو ٹوپی…! سسرال سے اب آئے ہیں دعوت اُرا کے ہم میکے سے اُن کو لائے ہیں تحفے بھی پاکے ہم حالانکہ باپ ہم بنے بیٹے کے

شیشہ و تیشہ

شاہدؔ عدیلی غزل (مزاحیہ) بے حیائی کا ہر اک سمت نظارا ہے میاں نہ تو برقعہ ہے بدن پر نہ دوپٹہ ہے میاں بالیاں کان میں ہیں چہرا بھی چکنا