اب ’’علاقہ واریت‘‘ بھڑکانے کی کوشش

   

پروفیسر اپورو آنند
ہندوستان میں اب ایسا لگتا ہے کہ فرقہ پرست طاقتیں مختلف بہانوں سے عوام کے بیچ دراڑیں ڈال کر اپنا اُلو سیدھا کرنے میں مصروف ہیں۔ اقلیتوں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر و بیانات، نفرت انگیز اقدامات کے ذریعہ ماحول کو زہر آلود کرنے کا بھی سلسلہ جاری ہے۔ ایسے میں علاقہ واریت کے ذریعہ شمال اور جنوب کو بھی بانٹنے کی گھناؤنی کوششیں شروع کردی گئیں لیکن اس سے نقصان کس کا ہوگا؟ یہ سوچنے اور سمجھنے والی بات ہے۔ جہاں تک شمال اور جنوب کو بانٹنے تقسیم کرنے کا سوال ہے، حال ہی میں اس بات کی افواہیں پھیلائی گئیں کہ ٹاملناڈو میں محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ بھرنے والے بہاری مزدوروں پر حملے کئے گئے ہیں، اس خبر سے نہ صرف ریاست بہار بلکہ شمالی ہند میں ایک قسم کی بے چینی پھیل گئی جبکہ ان حملوں کے بارے میں جو کچھ خبریں پھیلائی گئیں، وہ صرف افواہیں ثابت ہوئیں۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں ٹاملناڈو میں رہ کر محنت مزدوری کرنے والے جھارکھنڈ کے ایک شخص نے راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے کی خاطر ایک فرضی ویڈیو بنایا جس میں ایسے دکھایا جیسے اس پر ظلم کیا جارہا ہے اور پھر اس شخص نے خود کو مشہور کرنے کی خاطر اس ویڈیو کو وائرل کردیا۔ وہ ایک ایسا شخص ہے جو ایک خطرناک کھیل کھیل رہا تھا۔ وہ ایک ایسی اُمید کے ساتھ جھوٹ گھڑ رہا تھا کہ اس کے اپنے لوگ اس پر یقین کرلیں گے کیونکہ ان کے ذہنوں میں پہلے ہی سے ٹاملوں کے تئیں تعصب و جانبداری موجود ہے۔ ہمیں یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے ملک بھر میں جھوٹی اور فرضی کہانیاں پھیلائی، اصل میں مختلف ریاستوں سے تعلق رکھنے بی جے پی قائدین ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ عناصر ہندی میڈیا پلیٹ فارمس پر کافی سرگرم ہیں۔ جو اس قسم کی خبریں کافی اہمیت سے شائع کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ بھی ایک وسیع تر ایسے ہندوتوا نیٹ ورک کے حصہ کے طور پر سلوک روا رکھا جانا چاہئے جس کی لیڈر یا قائد بی جے پی ہے۔ بی جے پی قائدین اور پلیٹ فارمس نے بہاریوں کے خلاف تشدد کی جھوٹی خبریں پھیلاتے ہوئے ٹاملوں کے خلاف شکوک و شبہات اور نفرت پیدا کی۔ ان افواہوں کے باعث بیرونی ریاست کے مزدوروں میں خوف پیدا ہو۔کئی مزدوروں نے دعویٰ کیا کہ ان لوگوں نے تشدد کے بارے میں میں سنا ہے۔ اگرچہ انہیں خود کسی بھی قسم کے تشدد کا سامنا کرنا نہیں پڑا۔ اس کا مطلب یہ ہوا افواہوں نے اپنا کام کر دکھایا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا۔ حکومت بہار پر بھی چیف منسٹر ٹاملناڈو کے ساتھ سازباز کے الزامات عائد کئے گئے اور کہا گیا کہ ٹاملناڈو میں بہاریوں کا قتل کیا جارہا ہے اور ایسے میں حکومت بہار نے چیف منسٹر ٹاملناڈو سے سازباز کرلیا۔ اگرچہ یہ سفید جھوٹ تھا لیکن بی جے پی نے اس جھوٹ کو بار بار دہرایا بی جے پی نے جو کچھ کہا آیا وہ قوم دشمن کارروائی نہیں تھی؟ جھوٹی خبروں کو بے نقاب کئے جانے کے بعد بھی افواہوں سے سماج کے ایک بڑے حصہ میں جو شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔ وہ آسانی سے دُور نہیں ہوں گے۔ کئی لوگ اب بھی یہ یقین کرنے سے انکار کریں گے کہ وہ سب جھوٹ اور افواہ تھی۔ وہ یہ وجہ پیش کرتے ہیں کہ کوئی بھی افواہوں یوں ہی نہیں پھیلتی بلکہ اس کے پیچھے کچھ نہ کچھ سچائی ہوتی ہے۔ دھواں یوں ہی نہیں اُٹھتا آگ لگتی ہے تو دھواں اُٹھتا ہے چنانچہ اس خبر میں کچھ نہ کچھ سچائی ضرور ہوگی اور پھر وہ اس بارے میں سوچیں گے اور آپ کو ٹاملناڈو سے تعلق رکھنے والے سیاسی قائدین کے پرانے ویڈیوز دکھائیں گے جس میں وہ ہندی بولنے والوں کا مضحکہ اُڑا رہے ہیں پھر ان ویڈیوز پر تنقیدوں کا سلسلہ جاری ہوگا لیکن سوال یہ ہے کہ فرضی یا جھوٹی خبروں کے سردست پھیلنے سے ان پرانے ویڈیوز کا کیا تعلق ہے۔ کیا یہ کہتے ہوئے اسے حق بجانب قرار دیا جاسکتا ہے کہ یہ افواہیں دراصل سابق میں ٹامل لیڈروں کی جانب سے کی گئی تقاریر کا ردعمل ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ٹاملناڈو میں بہاری مزدوروں پر تشدد کی افواہیں پھیلاکر بی جے پی نے معاشرہ کو جو نقصان پہنچایا وہ بہت زیادہ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کو مخالف گروپوں میں تقسیم کرنے کی ایک سازش ہے۔ نہ صرف بہار بلکہ ہندی بولنے والی اترپردیش، مدھیہ پردیش جیسی ریاستوں وغیرہ میں بھی ٹاملناڈو کے خلاف شکوک و شبہات میں اضافہ ہوگا، اس لئے بی جے پی کو انتہائی گھناؤنے جرم کے زمرہ میں رکھا جانا چاہئے۔ اس طرح کی حرکت کے بعد بی جے پی کو بجا طور پر ایک ایسی پارٹی کہا جاسکتا ہے جو ہندوستان کو ہزار ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی خواہاں ہے۔
کچھ دن قبل ہم نے کرناٹک میں مرکزی وزیر داخلہ کو یہ کہتے ہوئے سنا، وہ اپنے خطاب میں لوگوں سے کہہ رہے تھے کہ پڑوسی ریاست کیرلا سے خبردار اور محتاط رہیں۔حد تو یہ ہے کہ وزیر داخلہ اس طرح کی باتیں کررہے ہیں۔ یوپی اسمبلی انتخابات کے دوران بی جے پی قائدین نے بار بار یہ کہا تھا کہ اترپردیش کو کیرلا، مغربی بنگال اور ٹاملناڈو بننے سے بچانا ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کو اقتدار پر لانا بہت اہم ہے۔ صرف بی جے پی ہی کیرلا کے خطرہ کو کرناٹک اور اُترپردیش جیسی ریاستوں سے دُور رکھ سکتی ہے۔ امیت شاہ اپنی تقاریر کے ذریعہ کیرلا کے تئیں جو نفرت پھیلا رہے تھے، اس سے لوگوں کے ذہن اس قدر زیادہ آلودہ ہوگئے کہ جب ریاست کیرلا سیلاب سے متاثر تھی تب ہندوتوا وادیوں نے عوام سے یہ کہنا شروع کردیا کہ کیرلا کی کسی طرح مدد نہ کریں۔ ہم نے خود لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ انہیں مرنے دو، بھگوان نے گائے کا گوشت کھانے کی کیرلا والوں کو سزا دی ہے۔ ان لوگوں نے صرف اِسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ کیرلا کے عوام بالخصوص مسلمانوں کو دہشت گردوں کے طور پر پیش کیا۔ اس طرح جموں و کشمیر میں بھی بی جے پی اور آر ایس ایس اس پالیسی کو اپنائے ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس ہندی بولنے والی ریاستوں میں کشمیریوں کے خلاف تشدد کے واقعات اول صفحات کی خبر نہیں بنتی۔ آپ ذرا غور کریں کہ اُترپردیش جیسی ریاست میں ٹاملناڈو یا کیرالا کیلئے نفرت پیدا کیوں کی جاتی ہے۔ دراصل یہ بتانے کیلئے ایسا کہا جاتا ہے کہ ان علاقوں میں ہندوستانیت نہیں ہے کیونکہ ان ریاستوں نے ہندی کے نفاذ کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔