موڈانی صنعت کاروں اور حکومت کا ناپاک گٹھ جوڑ

   

یوگیندر یادو
لفظ موڈانی اگرچہ طنزیہ طور پر ہمارے وزیراعظم نریندر مودی اور اڈانی کی قربت کو ظاہر کرنے کیلئے اپوزیشن قائدین استعمال کررہے ہیں لیکن اب موڈانی جیسا لفظ ایسا لگتا ہے کہ سیاسی لغت میں اپنا مقام حاصل کرچکا ہے۔ کانگریس رکن پارلیمنٹ راہول گاندھی کا تازہ ترین ٹوئیٹ اسی اظہار کو اپناتا ہے جو ان کی پارٹی ( کانگریس ) کی سوشل میڈیا مہم ’’ ہم اڈانی کے ہیں کون ‘‘ میں پہلے ہی سے کافی مقبولیت حاصل کرچکا ہے ۔ یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعتوں نے گوتم اڈانی معاملہ کی جس مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے اس میں بھی یہ طنزیہ لفظ یعنی ’’ موڈانی ‘‘ شامل ہے اگرچہ اپوزیشن پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اڈانی معاملہ کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعہ تحقیقات کرانے کا مسلسل مطالبہ کررہی ہے لیکن حکمراں بی جے پی ٹس سے مس نہیں ہورہی ہے بلکہ پارلیمنٹ کے قیمتی وقت کو ضائع کیا جارہا ہے جس سے سیاسی جماعتوں بالخصوص بی جے پی کا کوئی نقصان نہیں بلکہ ٹیکس ادا کرنے والے عوام کا بہت زیادہ نقصان ہورہا ہے شاید اس کا احساس حکومت اور وزیراعظم اور وزراء کو تھوڑا سا بھی نہیں ہے ۔ راقم یہ دعوی کرسکتا ہے کہ میںنے بھی لفظ ’’ موڈانی ‘‘ کو ویڈیوز ، سوشیل میڈیا پوسٹس اور ہینڈنبرگ رپورٹ کے منظر عام پر آنے اور اس کے ساتھ ہی گوتم اڈانی کے فراڈ و بدعنوانیوں کو بے نقاب ہونے کے بعد مقبول عام بنانے میں چھوٹا موٹا کردار ادا کیا ہے ۔ آپ کو بتادوں کہ میں نے ’’ موڈانی ‘‘ جیسی اصطلاح نہیں گھڑی اگرچہ میں نے سب سے پہلے یہ اصطلاح مدھیہ پردیش سے تعلق رکھنے والے اپنے ایک قریبی دوست ، کسانوں کے حقوق کیلئے لڑنے والے جہدکار اور سوشلسٹ لیڈر ڈاکٹر نیلم سے سنی تھی ڈاکٹر نیلم اسی اصطلاح کو چند برسوں سے استعمال کررہے ہیں ۔ خاص طور پر جب حکومت کے کسان مخالف اقدامات منظر عام پر آتے ہیں تو وہ ’’ موڈانی ‘‘ جیسی اصطلاح استعمال کر کے مودی حکومت اور بی جے پی کو شرمندہ و شرمسار کرتے ہیں ایک اور بات یہ ہیکہ لال جی بھائی دیسائی صدر کانگریس سیوا دل نے جو بھارت جوڑو یاترا کے دوران میرے ہم سفر رہے مجھے بتایا کہ جب وزیراعظم نریندر مودی گجرات کے عہدہ چیف منسٹری پر فائز تھے تب انہوں نے ہی ’’ موڈانی ‘‘ جیسی اصطلاح گھڑی تھی شکر ہیکہ دیہاتی نغمے اور سیاسی نعرے ہنوز قانون حقوق اختراع سے محفوظ ہیں ان کی کوئی بھی نقل کرسکتا ہے اور اس پر کسی کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہوتا ۔
اگر لفظ موڈانی پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ صرف ایک طنز ہی نہیں بلکہ اس لفظ سے حکمراں بی جے پی اور اس کے قائدین اپنی توہین محسوس کررہے ہیں اگرچہ یہ ایک چھوٹی سی اصطلاح ہے ایک چھوٹا سا لفظ ہے لیکن یہ اپنے آپ میں بے شمار راز سمائے ہوئے ہے جو ملک کی موجودہ سیاسی ، معاشی صورتحال ، سیاست دانوں بالخصوص حکومتوں اور صنعت کاروں کے ساز باز کو ظاہر کرتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ موجودہ حکومت میں سیاسی طاقت اور معاشی طاقتوں ( صنعت کاروں ) کے درمیان کس قسم کی ساز باز پائی جاتی ہے اور ناپاک گٹھ جوڑ پایا جاتا ہے ۔ جہاں تک موجودہ مودی حکومت کا سوال ہے اس کے بارے میں اپوزیشن ببانگ دہل الزام عائد کررہی ہے کہ اس نے اڈانی سے ساز باز کے ذریعہ ملک کی شبیہ کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور سرکاری سطح پر اس ناپاک گٹھ جوڑ کو فروغ دیا جارہا ہے ۔ مجھے تو شبہ ہے کہ ساستدانوں اور صنعت کاروں کے درمیان ساز باز مودی اور اڈانی تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ ان سے آگے بھی ان کے بعد بھی جاری رہے گا اور اپنا شعور یا Concept ہے جو یہاں باقی رہنے کیلئے آیا ہے اس کی اہم وجہ یہ ہیکہ سیاستداں ان کی حکومتیں اور صنعت کاروں کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے جاتے ہیں تو پھر ایک دوسرے سے مدد لینا ضروری ہوجاتا ہے ۔ ویسے بھی ہندوستان میں سیاست اور بزنس میں گٹھ جوڑ کوئی نئی بات نہیں ہے اس کا آغاز ہندوستانی جمہوریت کے آغاز کے ساتھ ہی ہوچکا تھا اگر آپ ہماری جدوجہد آزادی کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ جمہوریت کے آغاز سے پہلے ہی یہ گٹھ جوڑ پایا جاتا ہے ۔ ہماری جمہوریت کے ابتدائی دہے میں ہمارے ملک نے ایسے بڑے سیاسی اسکینڈلوں کا مشاہدہ کیا جس میں سیاسی قائدین اور تاجرین و صنعت کار کے درمیان خفیہ تعلقات پائے جاتے تھے اس ضمن میں ہمارے ملک نے سابق چیف منسٹر پنجاب پرتاب سنگھ کیرون کے زوال سے لیکر ناگروالا اسکنڈل پر پردہ ڈالنے کی کوششوں اور بوفورس سے لیکر 2G اور رافل جیسے اسکامس و اسکنڈلس کا مشاہدہ کیا جس میں صنعت کاروں اور و سیاستدانوں ، کاروبار اور سیاسی شعبہ کے درمیان گٹھ جوڑ کا مشاہدہ کیا ۔ حال ہی میں بزنس اینڈ پالیٹکس ان انڈیا نامی ایک کتاب منظر عام پر آئی جسے Christophe Jaffelot اتول کوہلی اور کانتا مرلی نے اپڈٹ کیا جو یہ سمجھنے میں ممد و معاون ثابت ہوگی کہ صنعت کاروں اور سیاستدانوں کے درمیان تعلقات گذرتے وقت کے ساتھ کیسے بدل گئے اس کتاب میں میں ایسے مضامین شامل کئے گئے ہیں جن سے ہمیں وقت کے ساتھ ساتھ ریاستوں ( حکومتوں ) اور مختلف شعبوں کے درمیان تعلقات میں آئی تبدیلی سمجھنے انہیں جاننے کا موقع ملتا ہے ۔ کتاب میں 1990، 1991 اور پھر 2014 میں آئے مرحلوں کے حوالے دیئے گئے اور بتایا کہ 2014 میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے صنعتکاروں اور سیاستدانوں ( حکومتوں ) کے درمیان گہرے تعلقات کا ایک نیا مرحلہ آیا جس میں صنعت کاروں نے حکومتی پالیسیوں اور جماعتی سیاست پر جزوی تسلط حاصل کرلیا ۔ بہرحال موڈانی ماڈل نے ملک میں صنعت کاروں کو حکومتی پالیسی میں مداخلت کا موقع فراہم کیا ۔