ایسے الیکشن کمشنر کی ضرورت ہے جو وزیراعظم کیخلاف بھی کارروائی کرے

,

   

سپریم کورٹ کا ردعمل، انتخابی کمیشن سے متعلق عدالت کے تبصرہ پر مرکزی حکومت کا جواب داخل

نئی دہلی : سپریم کورٹ میں چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنرز کی تقرری سے متعلق داخل ایک عرضی پر گزشتہ دنوں سے سماعت کے دوران عدالت نے مرکزی حکومت پر تلخ تبصرہ کرنے کے ساتھ ساتھ کئی سوال بھی کیے تھے۔ 23 نومبر کو اس معاملے میں پھر سماعت ہوئی جس میں مرکزی حکومت نے اپنی بات سامنے رکھی۔ سپریم کورٹ مستقبل میں کالجیم سسٹم کے تحت سی ای سی اور ای سی کی تقرری کے عمل پر 23 اکتوبر کو داخل کی گئی ایک عرضی پر سماعت کر رہی تھی۔ اس عرضی میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ مرکز یکطرفہ انتخابی کمیشن کے اراکین کی تقرری کرتی ہے۔ اس معاملے میں پانچ ججوں جسٹس اجئے رستوگی، انیرودھ بوس، رشی کیش رائے اور سی ٹی کمار کی بنچ سماعت کر رہی ہے۔ عرضی میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ الیکشن کمشنرز (ای سی) کی تقرری کا کام سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، وزیر اعظم اور لوک سبھا میں حزب مخالف لیڈر کی کمیٹی کو سونپا جانا چاہیے۔آج عدالت نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کو اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ اگر کل وزیر اعظم کے اوپر بھی کسی غلطی کا الزام لگتا ہے تو وہ اپنی ذمہ داری نبھا سکے اور وزیراعظم کے خلاف بھی کارروائی کرسکے۔ عدالت نے کہا کہ سی ای سی کو سیاسی اثر ورسوخ سے آزاد اور خودمختار ہونا چاہئے۔ عدالت نے کہا کہ یہ وہ پہلو ہے جن پر حکومت کو غور کرنا چاہئے۔ بنچ نے حکومت کے وکیل سے یہ بھی کہا کہ وہ الیکشن کمشنر کی تقرری کے عمل کو ظاہر کرے۔ اس پر مرکزی حکومت کی طرف سے جواب دیا گیا کہ صرف تصورات کی بنیاد پر مرکزی کابینہ پر عدم اعتماد نہیں کیا جانا چاہیے۔ اب بھی اہل لوگوں کا ہی انتخاب کیا جا رہا ہے۔ عدالت عظمیٰ کا کہنا ہے کہ آئین میں چیف الیکشن کمشنر اور دو الیکشن کمشنرز کے کندھوں پر اہم ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔ اس لیے ان کی تقرری کے وقت غیر جانبدار اور شفاف عمل اختیار کیا جانا چاہیے، تاکہ بہتر شخص کا ہی اس عہدہ پر تقرر کیا جائے۔ عدالت نے کہا کہ اس بارے میں آئینی خاموش کا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ سابق بیورو کریٹ ارون گوئل نے 19 نومبر کو الیکشن کمشنر کے عہدہ پر تعیناتی کے بعد پیر کو اپنے عہدہ کا جائزہ حاصل کرلیا۔ سشیل چندر کے ریٹائرمنٹ کے بعد جاریہ سال مئی سے تین رکنی کمیشن میں الیکشن کمشنر کا عہدہ خالی تھا۔