یوم جمہوریہ کا پیغام

,

   

26 جنوری کی تاریخ سیکولر دستور کے نفاذ کو یاد دلاتی ہے اور اسی طرح یہ حقیقت بھی یاد دلاتی ہے کہ یہ ملک ایک جمہوری ملک ہے، یہاں ہر ایک کو رہنے کی، اپنے مذہب پر چلنے کی، کوئی سی زبان بولنے کی، کوئی سی تہذیب اختیار کرنے کی پوری آزادی ہے۔ اس ملک میں کسی ایک تہذیب کا بڑھاوا دینا یا کسی ایک مذہب کو سب پر مسلط کرنا دستور کے خلاف ہے۔ ماضی میں اگر ہم نے شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کی تو اس کی بنیاد یہی ہے کہ آپ نے مذہب کے نام پر اس قانون میں امتیاز برتا ہے۔ ہمارے ملک کا دستور یہ کہتا ہے کسی بھی مذہب والے کیساتھ مذہب کی بنیاد پر بھید بھاؤ نہیں کیا جاسکتا، اگر کوئی بھید بھاؤ کیا جائے گا تو یہ اس ملک کی اصل روح کے خلاف ہے، اس ملک کے دستور کے خلاف ہے۔ جو دستور بنایا گیا اس کی بنیاد آزادی پر رکھی گئی، مساوات یعنی برابری پر رکھی گئی، ہمدری اور ایک دوسرے سے اچھے تعلقات پر رکھی گئی، اور ہمارے دستور کی تمہید میں یہ باتیں لکھی ہوئی ہیں ہمارے دستور کی بنیاد آزادی، مساوات اور ہمدری ہے لیکن اس کے باوجود ہم دیکھ رہے ہیں کہ ستر سال گزر جانے کے بعد ہم حسرت سے یوم جمہوریہ کے اس پر مسرت موقع پر یہ بات کہنے پر مجبور ہیں کہ ہمارے ملک میں جمہوریت کو قتل کیا جارہا ہے اور اس بات کی کوشش کی جارہی ہے کسی طریقے اس ملک پر کسی خاص مذہب کی چھاپ ڈال دی جائے ۔ یاد رکھیے گا یہ اس ملک کی اس گنگا جمنی تہذیب کے خلاف ہے جس کے ذریعے یہ ملک آگے بڑھ رہا ہے۔ ہمارے لیے یہ بات خوشی کی ہے کہ ہمارا ملک ایسا ہے جہاں مختلف مذہب کے ماننے والے رہتے ہیں، سب اپنے اپنے طریقے سے جیتے ہیں، سب اپنے اپنے مذہب کی چیزوں پر عمل کرتے ہیں، کوئی کسی کے بارے میں تکلیف دہ بات نہیں کہتا، یہ ہمارے لیے خوشی کی بات ہے لیکن فرقہ پرستوں نے جو نفرت کا زہر پورے ملک میں گھولا ہے ہم مجبور ہیں یہ بات کہنے پر کہ وہ لوگ اس دیش کو تباہی و بربادی کی طرف لے جارہے ہیں، جس طرح کے کالے قوانین ہم پر مسلط کیے جارہے ہیں وہ دستور کے خلاف ہیں، ایسے وقت میں جب کہ ملک پیچھے ہورہا ہے، مندی بڑھتی جارہی ہے، کسان خود کشی کررہے ہیں، جی ڈی پی گر رہی ہے، اقتصادی بحران آیا ہوا ہے اور ملک آہستہ آہستہ پیچھے کی طرف جارہا ہے ایسے وقت میں کسانوں کے فائدے کے خلاف قوانین نافذ کرنا اور ملک کے ایک بڑے حصے کو احتجاج پر مجبور کردینا اس بات کی خبر دیتا ہے کہ نان اشوز کو اشوز بنایا جارہا ہے جو مدعے نہیں ہیں انہیں مدعے بنا کر پیش کیا جارہا ہے تاکہ اقتدار والوں کی غلطیوں کو چھپایا جاسکے، یاد رکھیے گا بھارت جیسا وشال دیش بڑے دل کے لوگ چلاسکتے ہیں چھوٹے دل کے لوگ یہ ملک نہیں چلاسکتے۔

حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب دامت برکاتہم(سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ) پیشکش: سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ