افغانستان معدنیات سے مالا مال ملک طالبان سے ہندوستان کا ربط

   

خرم عباس
حالیہ عرصہ کے دوران پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہت خراب ہوگئے ہیں، بعض اوقات ایسا محسوس ہورہا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کہیں جنگ شروع نہ ہوجائے ۔ مثال کے طور پر حال ہی میں پاکستانی دفتر خارجہ کا ایک بیان منظر عام پر آیا جس میں کہا گیا کہ افغانستان میں امریکی افواج کے چھوڑے گئے عصری ہتھیار پاکستان اور اس کے شہریوں کے تحفظ کیلئے باعث تشویش ہے ۔ واضح رہے کہ اگست 2021 میں امریکی فوج کے انخلا کے بعد امریکی اسلحہ افغانستان میں ہی رہ گئے تھے حالانکہ امریکی فوج نے ان ہتھیاروں اور دیگر آلات حربی کو تباہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی ۔ دوسری طرف پاکستان۔ افغانستان سرحد پر وقفہ وقفہ سے جھڑپیں معمول بن گئی ہیں جس میں پاکستان اور افغانستان کے طالبان سپاہیوں کو زبردست جانی نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے ۔ ایک بات تو ضرور ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے اور امریکہ کے راہ فرار اختیار کرنے کے بعد ہندوستان نے بھی افغانستان سے دوری اختیار کرلی تھی لیکن جیسے ہی پاکستان ، افغانستان کے درمیان دوریاں پیدا ہوئیں ، ہندوستان نے طالبان کے ساتھ نئے سرے سے تعلقات استوار کرنے کی کوشش تیز کردی ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ ہندوستانی طالبان سے پاکستان کی دوری کا پورا پورا فائدہ اٹھانے کا خواہاں ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 8 جنوری کو ہندوستانی معتمد خارجہ وکرم مسری نے طالبان حکومت کے کارگزار وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کی ۔ دونوں کی ملاقات متحدہ عرب امارات کے دبئی میں ہوئی ۔ اگرچہ ہندوستان اور طالبان پچھلے 14 ماہ سے رابطے میں رہے ہیں اس کے باوجود یہ کہا جاسکتا ہے کہ حالیہ ملاقات دونوں ملکوں کی طالبات اقتدار کے بعد پہلی اعلیٰ سطحی ملاقات تھی ۔ ایسے بھی مارچ 2024 میں ہندوستان وزارت خارجہ کے جوائنٹ سکریٹری نے کابل میں افغان۔طالبان عہدیداروں سے ملاقات کر کے مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا ۔ آپ کو بتادیں کہ اگست 2021 میں امریکہ اور اس کے حلیف ملکوں کے بشمول انڈیا کی حمایت یافتہ افغان حکومت کے زوال اور طالبان کے اقتدار میں آنے کے فوری بعد نئی دہلی نے افغانستان میں اپنی سفارتی اور ترقیاتی سرگرمیوں کو روک دیا تھا ، اس کی وجہ سرزمین افغانستان میں ہندوستانی سفارتکاروں کی سلامتی سے متعلق تشویش تھی لیکن ہندوستان نے دو محاذوں پر افغانستان کی عبوری حکومت سے رابطہ کا سلسلہ جاری رکھا۔ ہندوستان نے افغانستان کی طالبان حکومت سے بات چیت کے چیانل کھولنے کیلئے انسانی امداد کو آلہ کے طورپر استعمال کیا ۔ دوسرا اہم کام حکومت ہند نے یہ کیا کہ سفارتی رسائی کو یقینی بنانے کیلئے متحدہ عرب امارات میں افغان عہدیداروں سے بات چیت شروع کی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ نئی دہلی نے نومبر 2023 میں افغان طالبان کے ساتھ بتدریج اور بڑی احتیاط کے ساتھ رابطہ شروع کیا ۔ ملاقاتیں شروع کی اور ان ملاقاتوں میں قابل لحاظ پیشرفت ہوئی ۔ خاص طور پر ہندوستانی عہدیداروں نے افغانستان کیلئے انسانی بنیادوں پر دی جانے والی امداد بڑھانے سے اتفاق کیا ۔ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق ہندوستان نے افغانستان کیلئے 47000 میٹرک ٹن گیہوں روانہ کیا ، اس کے ساتھ ہی نئی دہلی نے افغانستان کو بطور طبی امداد 200 ٹن ادویات بھی بھیجی ۔ اس طرح ہندوستان اور افغانستان کے درمیان بیاک چیانل ڈپلومیسی کے بھی بہتر نتائج برآمد ہوئے ۔ اس سفارت کاری کے نتیجہ میں حکومت ہند نے غنی انتظامیہ کے نئی دہلی میں واقع سفارتخانہ کو مستقل طور پر بند کر دیا ، ساتھ ہی متحدہ عرب امارات میں سفارت خانہ ہند طالبان کے ناظم الامور کو امارات کے دارالحکومت ابو ظہبی میں منعقدہ یوم جمہوریہ تقریب میں خاص طور پر مدعو کیا ۔ افغان طالبان تک ہندوستان کی رسائی کے پیچھے کئی ایک وجوہات کارفرما ہیں ۔ سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ عالمی برادری طالبان حکومت کے ساتھ میں رابطہ بڑھارہی ہے ۔ خود امریکہ طالبان سے قطر میں مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ دوسری طرف سیکوریٹی ، اقتصادی اور سیاسی سطح یا شعبوں میں امریکہ اور ہندوستان کا کٹر حلیف چین طالبان کے ساتھ باہمی تعلقات کو غیر معمولی انداز میں وسعت دے رہا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ عالم عرب بھی افغانستان کی عبوری حکومت کے ساتھ بہت ہی محتاط انداز میں رابطے قائم کررہا ہے ۔ ایسے میں ہندوستان نے یہ محسوس کیا کہ وہ علاقہ میں ہونے والی اس تبدیلی سے خود کو الگ تھلگ نہیں رکھ سکتا بلکہ وہ بھی طالبان کے ساتھ تعلقات بہتر بناکر افغانستان میں اپنے مفادات کی نگرانی کرسکتا ہے ۔ اپنے مفادات کا تحفظ کرسکتا ہے۔ یہاں دوسری اہم بات یہ ہے کہ جیسے ہی کابل پر طالبان کا قبضہ ہوا۔ ہندوستانی میڈیا اور اپوزیشن جماعتوں نے طالبان کی کامیابی کو پاکستان کی کامیابی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ۔ ہندوستان کی اپوزیشن جماعتوں نے افغانستان کے تئیں نریندر مودی کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ۔ ویسے بھی بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت پر اس بات کے لئے کافی تنقیدیں کی جاتی ہیں کہ اس نے اپنے پڑوسی ملکوں کے تئیں جو خارجہ پالیسی اپنائی ہے ، وہ کمزور ہے اور اس کمزور خارجہ پالیسی کا چین بھرپور فائدہ ا ٹھارہا ہے۔ مثال کے طور پر ہندوستان کی خارجہ پالیسی مالدیپ اور بنگلہ دیش میں بری طرح ناکام ہوگئی ۔ ان حالات میں افغان ، طالبان کے ساتھ دوبارہ بات چیت کرنے اور دوبارہ رابطے قائم کرنا دراصل اپوزیشن کی تنقید کو خاموش کرنے مودی حکومت کی ایک جزوی کوشش ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو مودی حکومت کو ا پنے پڑوسی ملکوں سے متعلق خارجہ پالیسی میں بہتری لانی چاہئے ورنہ اس کا نقصان ہندوستان کو اور فائدہ چین کو ہوگا ۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ اقتصادی فوائد کو دیکھتے ہوئے بھی نئی دہلی کا طالبان سے قربت اختیار کرنا ضروری تھا ۔ مثال کے طور پر کابل پر طالبان کے قبضہ سے پہلے ہندوستان افغانستان میں 13 ارب ڈالرس مالیتی بنیادی سہولتوں اور برقی پراجکٹس پر کام کر رہا تھا لیکن اقتدار میں طالبان کے آتے ہی ہندوستانی انجنیئروں نے افغانستان میں جن پراجکٹس پر کام کر رہے تھے ، وہ کام روک دیا جبکہ سفارتی عملہ اور دیگر عہدیداروں نے سفارتی عمارتوں بالخصوص سفارت خانہ کا تخلیہ کردیا، انہیں خدشہ لاحق ہوگیا تھا کہ طالبان انہیں نہیں بخشیں گے ، وہ ان کی سلامتی کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں۔ اب ہندوستان ان سرگرمیوں کو دوبارہ شروع کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے ۔ جہاں تک افغانستان کا سوال ہے وہ ایسا ملک ہے جس کے باشندوں نے کبھی بھی کسی کی غلامی قبول نہیں کی بلکہ اپنی زندگیوں کو قربان کر کے دشمن کو بھی زبردست جانی و مالی نقصان پہنچایا۔ (امریکہ جو خود کو سپر پاور کہتا ہے ، اسے لاکھ ٹکنالوجی اور عصری اسلحہ رکھنے کے باوجود افعانستان سے جھکنا پڑا ، اس میں کوئی دورائے نہیں کہ افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو طالبان نے شرمناک شکست سے دوچار کیا) افغانستان قدرتی وسائل بالخصوص قیمتی دھاتوں و غیرہ سے مالا مال ہے ۔ اس ضمن میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ افغانستان میں لیتھیم کے دخائر موجود ہیں۔ آج دنیا میں لیتھیم کی زبردست مانگ ہے ۔ کئی ایسی اسٹیڈیز منظر عام پر آئی ہیں جس میں واضح طور پر یہ امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ افغانستان میں ایک کھرب ڈآلرس سے زائد مالیتی معدنیات کے ذخائر موجود ہیں۔ افغانستان میں لیتھیم کے ساتھ ساتھ کرومیم، کاپر (تانبہ) ، سونا ، خام لوہا ، گندھک ، زنک ، ماربل ، قیمتی و نیم قیمتی پتھر و غیرہ کے دخائر موجود ہیں ۔ لیتھیم اور دوسرے قدرتی وسائل الیکٹرک گاڑیوں میں استعمال کئے جاتے ہیں اور بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت ہندوستان میں الیکٹرک وہیکلس کی تیاری پر بہت زیادہ توجہ دے رہی ہے، اس وجہ سے بے شمار مغربی فرمس ہندوستان میں اپنے بزنس ہاوس قائم کر رہی ہیں ۔ آپ کو بتادیں کہ لیتھیم الیکٹرک گاڑیوں کی بیٹریوں میں استمعال ہوتی ہے ۔ افغانستان ان اہم ترین معدنیات سے متعلق ہندوستان کی طلب کو ایران کے چابہار بندرگاہ کے ذریعہ پورا کرسکتا ہے تاہم طالبان حکومت سے رابطوں اور بات چیت میں نئی دہلی کیلئے کچھ رکاوٹیں بھی ہیں۔ مثال کے طور پر طالبان کی پالیسیوں بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم اور حقوق نسواں کے تئیں ان کی پالیسیوں پر عالمی و علاقائی جو حدود ہیں مستقبل قریب میں ہندوستان کے ان حدود کو پھلانگنے کے امکانات دکھائی نہیں دیتے۔ اس کے ساتھ ہی ہندوستانی دفاعی شعبہ اور مہذب سماج سے وابستہ شخصیتوں نے لڑکیوں کی تعلیم ، افرادی قوت میں خواتین اور حکومت سے نسلی اقلیتوں کو دور رکھنے پر طالبان کو شدید تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں ۔ ان حالات میں فی الوقت مودی حکومت کی جانب سے مستقبل قریب میں طالبان حکومت کو تسلیم کئے جانے کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔ ہندوستان اگرچہ طالبان اقتدار سے قبل افغانستان کی تاجک اور ازبک قیادت سے خوشگوار تعلقات رکھتی تھی لیکن اب نئی دہلی نے افغان طالبان اور افغان نسلی اقلیتوں کے درمیان مصالحتی کردار ادا کرنے میں ہنوز کسی جوش و خروش کا مظاہرہ نہیں کیا ۔
(بشکریہ اسکرال ڈاٹ ان)