بعثت کے بنیادی مقاصدعلم و تحقیق ۔ حکمت و دانائی ۔ ادب و اخلاقشعور و آگاہی کے لئے عملی اقدامات

   

ربیع الاول اسلامی کیلنڈر کا تیسرا مہینہ ہے جس کے معنی ’’بہار‘‘ کے ہیں ۔ اس ماہ کی بارہویں تاریخ ۱ ؁ کو عام الفیل مطابق (۲۰؍ اپریل ۵۷۰؁ ء ) دوشنبہ کے دن بعد از صبح صادق و قبل از طلوع آفتاب پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی۔ یہ دن تاریخ انسانیت میں سب سے زیادہ بابرکت اور درخشاں و تابندہ ہے ۔ 1.8 بلین سے زائد مسلمان آپ کو Follow کرنے میں قلبی سکون و اطمینان محسوس کرتے ہیں یعنی دنیا کی آبادی کے 24% سے زائد لوگ آپ کو اپنا دینی و دنیوی پیشوا مانتے ہیں ۔ روئے زمین پر بسنے والا ہر چوتھا شخص مسلمان ہے جو دنیا کے ہر گوشے میں بستے ہیں۔ پیغمبر اسلام نے اپنے Folllowers کے لئے ایسی شاہراہ تیار کی ہے جس پر چلنا اور منزل مقصود تک پہنچنا کسی بھی مسلمان کے لئے دشوار نہیں ہے۔ وہ ہر پولیٹکل سسٹم میں خواہ وہ جمہوری ہو ، ریپلک ہو ، کمیونسٹ ہو ، شاہی ہو یا ڈکٹیٹر شپ ہو بہ آسانی اپنے دین پر عمل پیرا ہوتے ہوئے عزت و وقار سے زندگی بسر کرتا ہے ۔
حضرت محمد ﷺ نہ صرف اہل اسلام کے لئے بلکہ ساری انسانیت کے لئے نجات دہندہ ہیں۔ آپ ﷺ کی تعلیمات، انسانیت کو جسمانی، روحانی ، ذہنی ، فکری ہر قسم کی غلامی سے آزادی دلاتی ہے اور ہر انسان کے دل میں آزادی ، خوداعتمادی ، خودداری اور خودمختاری پیدا کرتی ہے ۔ آپ کی ولادت باسعادت چودہ صدی قبل ہوئی ہے لیکن آپ کی پرکشش تعلیمات اس بات پرشاہد ہیں کہ آپؐ ماڈرن زمانہ کے نبی ہیں۔ آپؐ کی تعلیمات عصر حاضر کے ہر چیالنج میں تشفی بخش رہنمائی کرتی ہے ۔ چنانچہ امریکن مصنف Michael H. Hart اپنی مشہور زمانہ تصنیف”The 100: A Ranking of the Most Influential Persons in History” میں دنیا کی 100 مؤثر ترین شخصیات کی سرفہرست نبی اکرم ﷺ کا نام مبارک درج کرتے ہیں ۔ اور بیان کرتے ہیں کہ تمام انسانیت میں بیک وقت مذہبی اور سیکولر دونوں سطحوں پر یکساں طورپر آپ ؐسے بڑھکر مؤثر ترین شخصیت کوئی ظاہر ہی نہیں ہوئی۔
“It Is This Unparalled Combination Of Secular And Religious Influence Which I Feel Entitles Muhammad ﷺTo Be Considered The Most Influential Single Figure In Human History.”
قرآن مجید کی پہلی پانچ آیات جو آپؐ پر نازل ہوئیں اس میں اُمت کو سب سے پہلا حکم پڑھنے اور لکھنے کا ہے ۔ یعنی اسلام کی بنیاد علم و تحقیق پر رکھی گئی ۔ پہلا حکم مسلمانوں کو پڑھنے ، سمجھنے ، غور و فکر کرنے ، نتائج اخذ کرنے کا ہوا ہے ۔ نیز قرآن مجید میں ’’علم ‘‘ اپنی مختلف اشتقاقی معنی و مفہوم میں ۸۷۰ سے زائد مرتبہ وارد ہوا ہے اور جابجا ’’تَعْقِلُوْنَ‘‘ (تم سمجھو) ، ’’یَتَدَبَّرُوْنَ ‘‘ (غور و فکر کریں گے ) ، ’’تَفْقَهُوْنَ‘‘(حقیقت کا ادراک کرسکیں گے ) ’’تَشْعُرُوْنَ ‘‘ ( فکر و شعور پیدا کریں گے ) کے ذریعہ سے تمام اہل اسلام کو دعوت علم و فکر دی گئی ہے ۔ قرآن مجید اندھی تقلید کے بجائے Reason, Logic Sources of Knowlege, Wisdom کو اختیار کرنے پر زور دیتا ہے ۔ اس میں من گھڑت قصے کہانیوں ، فرسودہ رسومات ، باطل اوھام و تصورات کی کوئی گنجائش نہیں ۔ یہی تعلیمی اور فکری انقلاب نے تمدن سے بچھڑے ہوئے عربوں کو ایک نئی Civilization کی بنیاد رکھنے کا حامل بنایا ۔ علاوہ ازیں ہندوازم جوکہ قدیم ترین مذہب اور Civilization تصور کیا جاتا ہے آج اس ماڈرن دور تک Racism اورنسلی امتیاز کا خاتمہ نہ کرسکا اور خواتین کو ان کا حقیقی درجہ اور حقوق دلانے میں کامیاب نہ ہوا لیکن ان سارے محاذ پر حضرت محمد ﷺ اپنی حین حیات غالب آچکے تھے ۔ سرورکائنات ﷺ اس لحاظ سے امتیاز رکھتے ہیں کہ آپؐ کی ذات بابرکات میں وہ تمام اوصاف و محاسن خلقی فطری طورپر جمع تھے جنھیں سلیم الطبع اور راست فکر لوگ عظمت و رفعت کا معیار سمجھتے ہیں۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کی سیرت و شمائل کو دنیا بھر کے انسانوں کے لئے ’’اُسوۂ حسنہ ‘‘ قرار دیا۔ نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں جس چیز نے سب سے زیادہ لوگوں کو متاثر کیا اور آپؐ کا گرویدہ بنایا وہ آپؐ کا حسن خلق اور جمیل طرز معاشرت تھا ۔ آپؐ ہمیشہ اس بات کا شدت سے اہتمام فرماتے تھے کہ آپؐ کی کسی بات یا کسی طرزعمل سے دوسروں کو تکلیف نہ پہنچے ۔ آپؐ اپنے جانثاروں کے جذبات کا بہت احترام کرتے تھے ۔ ایک دفعہ فرمایا میں نماز لمبی کرنا چاہتا ہوں ، مگر پیچھے سے مجھے کسی بچے کے رونے کی آواز سنائی دیتی ہے تو اس کی ماں کا خیال کرکے نماز مختصر کردیتا ہوں۔ (مسلم ، نسائی ) لوگوں کی مشقت اور تکلیف کا خیال کرکے آپ نہایت مختصر وعظ فرماتے۔ (ابوداؤد) اور دوسروں کو بھی اس کا حکم دیتے ۔
جس ہستی ٔ مبارک کی ولادت باسعادت نے ساری دنیا میں تعلیمی ، اخلاقی اور فکری انقلاب پیدا کیا آج شہر حیدرآباد میں اسی ہستی کی میلاد کے موقعہ پر غیرشرعی و نازیبا اُمور از راہ حصول ثواب انجام دیئے جارہے ہیں، گانوں کی دھن پر نعتیں پڑھی جارہی ہیںاور اس پر رقص و سرور ہورہا ہے ۔ عورتوں اور مردوں کا اختلاط ہورہا ہے ، رات بھر سڑکوں پر تیز رفتار گاڑیاں چلائی جارہی ہیں اور چیخ و پکار ہورہا ہے ۔ لب سڑک رہنے والوں کے لئے شب میلاد سونا مشکل ہوگیا ہے۔
ایسی ناگفتہ بہ صورتحال میں ائمہ و خطباء کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنے طریقۂ اصلاح و تبلیغ پر ہر زاویہ سے غور وفکر کریں اور نوجوانوں کی ذہنی اور فکری تربیت میں ناکامی کا جائزہ لیں اور اس کے لئے ایک جامع منصوبہ بندی درکار ہے ۔ ابتدائی مرحلے میں ائمہ و خطباء کی ترجیح ہونی چاہئے کہ وہ اپنے اپنے علاقے میں بچوں اور نوجوانوں سے متعلق سروے کریں کہ کتنے بچے اور نوجوان ان کے زیراثر علاقوں میں اسکولس اور کالجس کا رُخ نہیں کرتے اور اکتساب علم کی بجائے کسب معاش میں اپنی زندگی کے سنہرے حصہ کو ضائع کرتے ہیں۔ ایسے بچوں اور نوجوانوں کو ذہنی ، فکری اور بنیادی دینی تربیت کے لئے ہفتہ واری جزوقتی کورسس ترتیب دیکر ان کو راغب کرنا اور ان کی تربیت کرنا ائمہ و خطباء کا اہم فریضہ ہے ۔