نئی دہلی۔دہلی کی ایک عدالت نے ہندوسینا کے صدر وشنوگپتا کی جانب سے سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید کی کتاب‘ سن رائز اور ایودھیا‘ ہمارے وقت میں قومیت“ کی سرکولیشن‘اشاعت کو ان کے مبینہ ہندوتوا ریمارکس کے حوالے سے روکنے کے ہدایت پر مشتمل درخواست پر حکم امتنا ع عائد کرنے سے انکار کردیاہے۔
پٹیالہ ہاوز کورٹ کی ایڈیشنل سیول جج پریتی پارویوا نے درخواست گذار کے وکیل اکشے اگروال کی جانب سے پیش کردہ استدلال پر غور کرتے ہوئے کہاکہ مدعی نے اپنے حق میں سہولت کا توازن قائم کرنے میں ناکام رہا ہے اور عبوری راحت فراہم کرنے سے انکار کردیا۔
اپنے احکامات میں جج نے نوٹ کیاکہ دوسری فریق کو اپنی کتاب شائع کرنے کا اختیار ہے او رکہاکہ ”کس وجہہ سے کتاب کی اشاعت کو روکنا ہے اس پر مدعی نے تشفی بخش بات نہیں کہی ہے او رنہ ہی کتاب کے جارحانہ اقتباسات کوپیش کیا ہے“۔
عدالت نے 18نومبر کو موجود مقدمہ میں مزید دلائل اور وضاحت کادن مقرر کیاہے۔ احکامات میں کہاگیاہے کہ ”ایک اصول کے تحت دوسری فریق کے لئے حکم امتناع غیرمعمولی حالات میں ہی جاری کیاجاتا ہے“۔
مقدمہ کے مطابق ”مذکورہ بھگوا آسمان“ قراردئے جانے والے ایک باب پر تبصرہ کیاگیا ہے جو کتاب کے صفحہ113پر ہے جس کے تحت پڑھا جاسکتا ہے ”سناتھن دھرم اورکلاسیکل ہندو ازم
سنتوں او رسادھوں کے لئے جانا جاتا ہے جس کو ہندوتوا کے قدامت پسند نظریہ کی طرف سے پیچھے دھکیل دیاجارہا ہے‘ یہ تمام معیار پر کیاجانا والا کام ہے‘ جو کہ ایک سیاسی نظریہ جہددی اسلامی گروپس جیسے ائی ایس ائی ایس اور بوکوحرام کی طرف ہے جو حالیہ دنوں میں منظرعا م پر آیاہے“۔
اس متنازعہ کتاب پر امتناع میں ہدایت کے لئے دہلی نژاد ایک وکیل کی جانب سے دائر کردہ اسی طرح کی ایک درخواست پر دہلی ہائی کورٹ میں 24نومبر کے روز سنوائی عمل میں ائے گی۔
سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید کے ہندتوا گروپس کا جہادی تنظیموں سے تقابل کرنے کے بعد پیر کے روز ان کے نینی تال کے مکان پر حملہ او رتوڑ پھوڑ کی گئی تھی۔