شہیدوں کی زمیں ہے جس کو ہندوستان کہتے ہیں

   

جھارکھنڈ میں بی جے پی کو جھٹکا
این پی آر …این آر سی کی دوسری شکل
کے سی آر … پارلیمنٹ میں مخالفت ، میدان سے فرار

رشیدالدین
جس طرح ہر رات کے بعد دن کا آنا طئے ہے، اسی طرح ہر عروج کو زوال یقینی ہے۔ وقت کے ساتھ لوگوں میں دنوں کو پھیرنا قانون فطرت ہے جس سے کسی کو فرار نہیں۔ ان دنوں بی جے پی کا کچھ یہی حال ہے۔ ادبی زبان میں بی جے پی کی حالت کو ترقی معکوس بھی کہا جاسکتا ہے۔ 2014 ء میں مرکز میں بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کے بعد ملک میں جیسے نریندر مودی کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا یکے بعد دیگرے ریاستوں پر بی جے پی کا پرچم لہرانے لگا اور ملک کے اقتدار پر زعفرانی رنگ چھا گیا۔ 21 ریاستوں میں اقتدار کے بعد بی جے پی خود کو ناقابل تسخیر تصور کرنے لگی اور ’’کانگریس مکت بھارت‘‘ کا نعرہ لگایا گیا۔ مودی کا جادو اور امیت شاہ کی سیاسی تدبیروں نے بی جے پی کے اچھے دن کے خواب کو پورا کردیا ۔ مودی نے عوام سے اچھے دن کا وعدہ کیا تھا لیکن یہ وعدہ عوام کے اچھے دن تو نہیں لاسکا جبکہ بی جے پی کے اچھے دن ضرور آگئے۔ جس طرح مثل مشہور ہے کہ عوام کو ایک بار ، دو بار بے وقوف بنایا جاسکتا ہے لیکن بار بار نہیں۔ کچھ یہی حال بی جے پی کا ہوا۔ وہ شہرت اور اقتدار کی آخری منزل تک پہنچ گئی تھی۔ نریندر مودی نہ صرف دوسری میعاد کے لئے کامیاب ہوئے بلکہ لوک سبھا میں بی جے پی کو واضح اکثریت حاصل ہوئی۔ مودی کی لفاظی ، خوش کن اعلانات اور امیت شاہ کی سیاسی چالبازی نے مرکز میں اقتدار تو حاصل کرلیا لیکن ریاستوں میں بی جے پی کے لئے زمین تنگ ہونے لگی۔ پیروں تلے زمین کھسکنے لگی اور شکست کا پے در پے آغاز ہوچکا ہے۔ مرکز میں دوبارہ اقتدار کے نشہ میں چور من مانی فیصلوں پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی ۔ عوامی مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے ہندو توا ایجنڈہ ملک پر مسلط کرنے کی تیاریاں ہونے لگیں۔ ایسے میں عوام نے دستور ، قانون اور سیکولرازم کو درپیش خطرہ کو محسوس کرتے ہوئے بی جے پی کو سبق سکھانے کی ٹھان لی۔ دوسری میعاد کے آغاز کے ساتھ ہی طلاق ثلاثہ ، کشمیر سے 370 کی برخواستگی ، رام مندر ، شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور پھر قومی آبادی رجسٹر NPR جیسے متنازعہ فیصلے کئے گئے۔ پھر کیا تھا عوام کو بی جے پی کے حقیقی ایجنڈہ کا علم ہوگیا جس کے بعد سے بی جے پی ریاستوں میں سکڑنے لگی۔ گزشتہ دنوں جھارکھنڈ میں اقتدار سے محرومی کے بعد ان ریاستوںکی تعداد پانچ ہوگئی جہاں عوام نے مختصر مدت میں بی جے پی کو مسترد کردیا۔ راجستھان ، مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ کے بعد مہاراشٹرا اور تازہ ترین جھارکھنڈ میں بی جے پی کو ہزیمت اٹھانی پڑی ۔ اقتدار 21 ریاستوں سے گھٹ کر 16 تک محدود ہوگیا ۔ ان میں صرف 11 ریاستوں میں بی جے پی اپنی طاقت پر اقتدار پر ہے جبکہ پانچ ریاستوں میں وہ مخلوط حکومت میں شریک ہے۔ کانگریس اپنے طور پر پانچ اور حلیف جماعتوں کے ساتھ دو ریاستوں میں برسر اقتدار ہے ۔ 7 ریاستوں میں علاقائی جماعتیں برسر اقتدار ہیں۔ بی جے پی اور اس کی حلیفوں کی زیر اقتدار 16 ریاستوں 11 ریاستیں ایسی ہیں جہاں اسمبلی ارکان کی تعداد 100 سے کم ہے۔ مارچ 2018 ء سے ڈسمبر 2019 ء تک بی جے پی پانچ ا ہم ریاستوں میں اقتدار سے محروم ہوگئی جو عملاً بی جے پی کے زوال کا آغاز ہے۔ کانگریس مکت بھارت کا سپنا تو پورا نہیں ہوا لیکن بی جے پی مکت بھارت کے راستہ پر چل پڑی ہے۔ ہریانہ میں علاقائی جماعت کی تائید سے اقتدار بچ گیا لیکن مہاراشٹرا میں شیوسینا نے منہ تک آئے نوالے کو اچک لیا۔ بی جے پی فرقہ پرست ایجنڈہ کے دوران جھارکھنڈ کے عوام نے زبردست جھٹکا دیا ہے ۔ فلک بوس رام مندر ، کشمیر سے 370 کی برخواستگی ، شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی جیسے مسائل بی جے پی کو ووٹ نہیں دلاسکے۔ عوام نے فرقہ پرستی کے بجائے بنیادی مسائل کو ترجیح دی۔ اگر بی جے پی نہیں سنبھلتی ہے تو دہلی اور مغربی بنگال میں بھی برا حشر ہوسکتا ہے ۔ بی جے پی کی جارحانہ ہندو فرقہ پرستی کی ذہنیت اس کے خطرناک عزائم کو ظاہر کرتی ہے ۔ غیر بی جے پی ریاستیں مزاحمت کر رہی ہیں۔ مبصرین کے مطابق گجرات کی مودی ۔ امیت شاہ جوڑی جنون کی حد تک ایجنڈہ کی تکمیل کے سلسلہ میں آگے بڑھ چکی ہے اور وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ ملک ایمرجنسی کے راستہ پر چل پڑا ہے اور اندیشہ ہے کہ ایجنڈہ کی تکمیل کیلئے مخالفین کو جیلوں میں بند کردیا جائے گا تاکہ کوئی رکاوٹ نہ رہے ۔ کشمیر میں اس کا کامیاب تجربہ کیا جاچکا ہے ۔ قائدین کو محروس رکھ کر 370 ختم کردیا گیا ۔ چار ماہ سے وادی میں ایمرجنسی جیسی صورتحال ہے ۔ خصوصی مراعات ختم کرتے ہوئے آز ادی سلب کرلی گئی اور وادی کو فوج اور نیم فوجی دستوں کے حوالے کردیا گیا ۔ جھارکھنڈ کی شکست پر ایک سیاسی مبصر نے کچھ یوں تبصرہ کیا کہ ’’ظلمتوں کی رات ڈھل رہی ہے اور امیدوں کی سحر ابھر رہی ہے ‘‘۔
متنازعہ شہریت قانون اور این آر سی کے خلاف ملک بھر میں جاری احتجاج سے حکومت دفاعی موقف میں آچکی ہے اور این آر سی کے بارے میں قوم سے وضاحت کرنے لگی۔ عوامی ناراضگی سے پریشان وزیراعظم نریندر مودی جھوٹ کا سہارا لے کر تسلی دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ 2014 ء کے بعد سے این آر سی پر حکومت کی سطح پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے۔ شائد وہ لوک سبھا ، راجیہ سبھا اور عوامی جلسوں میں امیت شاہ کے اعلانات کو بھول گئے جس میں انہوں نے کہا کہ این آر سی پر سارے ملک میں عمل ہوگا۔ اتنا ہی نہیں صدر جمہوریہ رامناتھ کووند نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے خطاب میں این آر سی پر حکومت کے منصوبے کا ذکر کیا ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم سچے ہیں یا پھر امیت شاہ اور صدر جمہوریہ کے بیانات جھوٹے ہیں۔ جھوٹ کے بے نقاب ہونے کے بعد حکومت نے این پی آر کا نیا شوشہ چھوڑ دیا ۔ این پی آر کو ہر دس سال میں ہونے والی مردم شماری قرار دیا جارہا ہے جبکہ حکومت نے این پی آر میں جو شرائط کا اضافہ کیا ، وہ این آر سی کی ابتداء ہے۔ 2011 ء میں مردم شماری کے وقت صرف 15 نکات پر عوام سے سوالات کئے گئے تھے لیکن بی جے پی حکومت نے سوالنامے کو 15 سے بڑھاکر 21 نکاتی بنادیا ہے جس میں والدین کی تاریخ پیدائش اور مقام کا ثبوت دینا ہوگا۔ اس کے علاوہ آخری رہائش گاہ ، پاسپورٹ ، آدھار ، ووٹر آئی ڈی ، پیان کارڈ ، ڈرائیونگ لائسنس اور موبائیل نمبر کا اضافہ کیا گیا۔ الغرض این آر سی کے خلاف عوامی احتجاج کو دیکھتے ہوئے چالاکی سے این پی آر متعارف کیا گیا ہے کیونکہ بی جے پی کو کسی بھی صورت اپنے منصوبے کی فکر ہے۔ ملک کی 13 ریاستوں نے این آر سی پر عمل نہ کرنے کا اعلان کیا ، ان میں بعض ایسی پارٹیاں ہیں جنہوں نے پارلیمنٹ میں شہریت قانون کے حق میں ووٹ دیا تھا لیکن بعد میں عوامی ناراضگی کے سبب اپنا موقف تبدیل کرلیا ۔ بہار کے نتیش کمار ، اڈیشہ کے نوین پٹنائک ، آندھراپر دیش کے جگن موہن ریڈی اور مہاراشٹرا کے ادھو ٹھاکرے کے فیصلہ کو گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا کہا جاسکتا ہے۔ انہیں نفس مسئلہ سے زیادہ ووٹ بینک کی فکر ہے۔ دوسری طرف تلنگانہ کے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ جو سیکولرازم اور مسلم دوستی کا دم بھرتے ہیں، انہوں نے این آر سی اور این پی آر پر خاموشی اختیار کرلی۔ قومی شہریت قانون کے خلاف ٹی آر ایس نے پارلیمنٹ میں ووٹ دیا تھا لیکن جب این آر سی اور این پی آر کے خلاف میدان میں اترنے کا معاملہ آیا تو کے سی آر نے راہِ فرار اختیار کرلی۔ کے سی آر کی مسلم دوستی تو اس وقت بے نقاب ہوگئی تھی جب انہوں نے کشمیر سے 370 کی برخواستگی اور طلاق ثلاثہ پر بی جے پی کی تائید کی تھی ۔ 2014 ء سے آج تک کے سی آر نے بی جے پی کے تمام اہم فیصلوں کی تائید کی ہے ۔ دراصل کے سی آر کو بلدی انتخابات کی فکر لاحق ہے اور وہ این آر سی اور این پی آر کی مخالفت کرتے ہوئے ہندو ووٹ بینک سے محروم ہونا نہیں چاہتے۔ سیاسی موقع پرستی کے ماہر کے سی آر کو جان لینا چاہئے کہ این آر سی اور این پی آر کی مخالفت صرف مسلمان نہیں بلکہ سیکولر ہندو بھی کر رہے ہیں۔ احتجاج کے معاملہ میں سیکولر ہندو ابنائے وطن مسلمانوں سے زیادہ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ مسلم دوستی سے زیادہ کے سی آر کو دستور اور سیکولرازم کے تحفظ کی فکر ہونی چاہئے ۔ اگر تلنگانہ کے مسلمان اور دلت حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں تو بلدی انتخابات تو کیا آئندہ اقتدار خطرہ میں پڑسکتا ہے ۔ این آر سی کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں تقریباً 30 افراد نے اپنی جانوں کی قربانی دے دی لیکن کے سی آر کو کوئی ہمدردی نہیں۔ کم سے کم انہیں ادھو ٹھاکرے سے سبق لینا چاہئے جو کل تک ہندو توا ایجنڈہ کے حصہ دار تھے لیکن آج سیکولرازم کے راستہ کے نئے مسافر ہیں۔ منور رانا نے کیا خوب کہا ہے ؎
شہیدوں کی زمیں ہے جس کو ہندوستان کہتے ہیں
یہ بنجر ہوکے بھی بزدل کبھی پیدا نہیں کرتی