عمران خان اور نریندر مودی کو چاہئے کہ وہ مسائل کے حل کے لئے با ت چیت کو آگے بڑھائیں
دبئی۔ وزیراعظم نریندر مودی کا 30کے روز منعقد ہونے والی حلف برداری تقریب میں عمران خان کو مدعو نہ کرنے کے فیصلے سے ممکن ہے تکلیف ہوگی کیونکہ عمران پچھلے سال اقتدار میں آنے کے بعد سے ہندوستان کے ساتھ امن با ت چیت پر نظریں لگائے ہوئے ہیں
یہ آخری امید تھی عمران خان کے لئے جو مودی سے توقع لگائے ہوئے تھے جنھوں نے 2014میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو اپنی حلف برداری تقریب میں مدعو کیاتھا۔
حالانکہ ملک کے مصلح دستوں کے تحفظات کے باوجود نواز شریف نے اس تقریب میں شرکت کی تھی۔
مئی کے ابتداء میں ہی عمران خان نے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) اگر ہندوستان میں ہونے والے انتخابات میں جیت حاصل کرتی ہے تو پاکستان کے ساتھ بات چیت میں آسانی ہوگی۔
ماضی میں انہوں نے کہاتھا کہ ”اگرچہ کے بی جے پی دائیں بازو کی پارٹی جیت حاصل کرتی ہے تو کشمیر میں معاملات سدھر سکتے ہیں“۔
اب جبکہ مودی کی جیت ہوئی ہے‘ عمران خان کے لئے حلف برداری تقریب میں شرکت کی بہترین وجہہ بھی ہے۔ مودی کو چاہئے تھالہ وہ عارمن کو دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو ختم کرنے کے مقصد سے مدعو کرتے۔
مودی کی حلف برداری تقریب میں عمران کی شرکت بین الاقوامی سرخیوں بٹورنے میں مدد گار ثابت ہوتی۔
مودی کا یہ اقدام سارے دنیا میں اپنے ملک کی جانب سے امن کی کوششوں پر ایک مثبت پیغام بھی ہوتا۔
مودی کو چاہئے تھا کہ وہ عمران کی جانب سے الیکشن کے بعد امن کی بات چیت کی پہل کی پیشکش پر ردعمل پیش کرتے اور وہ اس موقف میں بھی ہیں کہ امن کی بات چیت کو آگے بڑھنے کے لئے فیصلہ لے سکیں۔
دونوں ممالک کو چاہئے کہ وہ مختلف سطحوں پر بات چیت کی شروعات کریں اور اہم مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں۔
دونوں میں اعتما د کی بحالی کے لئے انہیں کچھ اہم اقدامات بھی اٹھانے چاہئے جیسے زمینی راستوں کے ذریعہ تجارت کا فروغ‘ سرحدوں پرمسافرین او رکارگو ٹرانسپورٹ سروسیس جس میں کشمیر بھی شامل ہو اور لوگوں سے لوگوں کے رابطے کو آسان بنایاجائے۔
ہندوستان اور پاکستان کے مابین کرکٹ میاچوں کا انعقاد اوروفود کی آمد جیسے کاموں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
پاکستان نے عمران خان کو مدعو نہ کرنے کے فیصلے پر کہاکہ یہ ہندوستان کی داخلی سیاست کا معاملہ ہے جو مودی کو دعوت نامہ بھیجنے سے روک رہا ہے