یہ دن اگر بُرے ہیں تو اچھے بھی آئیں گے

   

کورونا لاک ڈاؤن …باقی کچھ بچا تو مہنگائی مارگئی
غریب بے حال… معیشت اور تعلیم کا برا حال

رشیدالدین
’’باقی کچھ بچا تو مہنگائی مار گئی‘‘ ملک کے موجودہ بحران کے تصور کے ساتھ ایک قدیم فلمی نغمہ کے یہ بول ذہن میں تازہ ہوگئے۔ 1974 ء میں ریلیز ہوئی فلم ’’روٹی کپڑا اور مکان‘‘ کا یہ گیت 45 سال بعد بھی ایسا لگتا ہے جیسے آج کے حالات کے لئے لکھا گیا ہو۔ فلمی گیت اور آج کے معاشی بحران میں ایک مماثلت پائی جاتی ہے۔ اسے محض اتفاق کہیں یا کچھ اور کہ 45 سال قبل غریبوں کے ابتر حالات پر لکھا گیا گیت آج اس وقت تازہ ہوگیا جب ملک کی معاشی ابتر صورتحال 45 سال بعد منفی شرح ترقی کی صورت میں درج کی گئی۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ جن حالات سے متاثر ہوکر گیت لکھا گیا تھا ، آج بھی وہی حالات لوٹ چکے ہیں۔ ملک میں 45 سال قبل کے حالات واپس آگئے اور اس وقت لکھا گیا گیت حالات پر صادق آتا ہے۔ معاشی بحران اور غریبوں کی بے بسی و بے چارگی کے اعتبار سے آج بھی 1974 ء کے حالات ہیں۔ ملک کی شرح ترقی ریکارڈ حد تک زوال کا شکار ہوچکی ہے۔ 45 سال بعد جی ڈی پی یعنی شرح ترقی -23.9 فیصد ریکارڈ کی گئی جو مالیاتی ایمرجنسی جیسی صورتحال ہے۔ 2014 ء میں نریندر مودی حکومت کی غلط پالیسیوں کے نتیجہ میں معیشت زوال کے راستہ پر چل پڑی لیکن کورونا وباء نے باقی کسر پوری کردی اور عوام ہی نہیں حکومتوں کو بھی مقروض بنادیا۔ لاکھوں نہیں بلکہ کروڑہا افراد روزگار سے محروم ہوگئے اور غربت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں لاکھوں خاندانوں کی خوشیاں چھین لی ہیں۔ موجودہ حالات کے لئے بظاہر کورونا اور لاک ڈاؤن کی صورتحال ذمہ دار ہے لیکن حکومت اپنا دامن نہیں بچا سکتی۔ اگر گزشتہ 6 برسوں کی معاشی پالیسی ، دور اندیشی اور غریب و متوسط طبقات کی بھلائی کو پیش نظر رکھ کر تیار کی جاتی تو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔ ملک کی ابتر معاشی صورتحال کے لئے سیاسی مبصرین تعلیم اور تجربہ کی کمی کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ جو معاشی اصلاحات کے لئے شہرت رکھتے ہیں ، ان کے دور وزارت عظمیٰ میں جی ڈی پی کی شرح 10.8 فیصد تھی۔ یو پی اے کے 10 برسوں میں کبھی بھی شرح منفی نہیں رہی۔ زندگی کے ہر شعبہ میں زوال اور ترقی معکوس کے درمیان پارلیمنٹ کا مانسون سیشن طلب کیا گیا ہے۔ کورونا کے خطرہ کے باوجود قانونی اور دستوری مجبوری کے تحت اجلاس کا آغاز ہونے کو ہے۔ اجلاس سے قبل اسپیکر نے تمام ارکان کے کورونا ٹسٹ کا فیصلہ کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ملک میں کورونا کیسیس اور اموات میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایسے میں سیشن کا انعقاد ارکان پارلیمنٹ اور اسٹاف کی زندگی کو جوکھم میں ڈالنا ہے۔ اس بات کی کیا گیارنٹی ہے کہ تمام ارکان کا ٹسٹ منفی آئے گا۔ ٹسٹ کے منفی آنے کے باوجود کوئی بھی وائرس کا شکار ہوسکتا ہے۔ ان خطرات کے پیش نظر سیشن کو ٹالا جاسکتا تھا۔ نریندر مودی حکومت کی ہٹ دھرمی کے رویے میں ہمیشہ عوام کا نقصان کیا ہے۔ برسر اقتدار آنے کیلئے اچھے دن کا خواب دکھایا گیا لیکن 6 برسوں میں حالت اور بھی ابتر ہوگئی۔ عوام حکومت سے 2014 سے قبل کے برے دن واپس لوٹ آنے کی مانگ کر رہے ہیں۔ پارلیمنٹ سیشن محض رسمی اور یکطرفہ ہوگا کیونکہ وقفہ سوالات کی گنجائش نہیں رہے گی۔ محض سرکاری کام کاج کی تکمیل کے سوا عوامی مسائل پر سیر حاصل مباحث کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
پارلیمنٹ ہو کہ اسمبلی وقفہ سوالات اصل روح ہوتی ہے جس میں عوامی نمائندے بالحصوص اپوزیشن کو زمینی حقیقت سے حکومت کو روبرو کرانے کا موقع ملتا ہے ۔ جمہوریت اور پارلیمانی نظام کے استحکام کا داومدار عوامی مسائل کی یکسوئی پر ہوتا ہے۔ اگر اپوزیشن کو عوامی مسائل پیش کرنے کا موقع نہ ملے تو پارلیمنٹ سیشن عملاً بی جے پی پارلیمانی پارٹی اجلاس میں تبدیل ہوجائے گا۔ پارلیمنٹ کے ذریعہ حکومت کو وضاحت کرنی پڑے گی کہ لاک ڈاون کے دوران 12 مئی کو نریندر مودی نے 20 لاکھ کروڑ کے جس پیاکیج کا اعلان کیا تھا ، اس پر کس حد تک عمل کیا گیا ۔ غریب و متوسط طبقات کی زندگی میں کیا تبدیلی رونما ہوئی ۔ پیاکیج کے اعلان کو تین ماہ گزر گئے لیکن غریب کی زندگی میں کوئی خوشحالی نہیں آئی ۔ مودی کے پیا کیج سے فائدہ غریبوں سے زیادہ سرمایہ داروں اور صنعتی گھرانے کو ہوا۔ 20 لاکھ کروڑ میں کتنی رقم کہاں خرچ کی گئی ، اس کا حساب ملک کے سامنے پیش کیا جائے۔ ویسے بھی مودی حکومت ابتداء سے اپنے قریبی صنعتی گھرانوں کے مفادات کی تکمیل کر رہی ہے۔ بینکوں اور مالیاتی اداروں کو ہزاروں کروڑ کا چونا لگانے والوں کو قرص معافی کی صورت میں کئی ہزار کروڑ کی رعایت دی گئی جبکہ غریبوں کے لئے لاک ڈاؤن مدت کا بینک سود بھی معاف نہیں کیا گیا۔ دوسری طرف بحران کے ان حالات میں نریندر مودی کے وزیر باتدبیر کی علالت نے بھی حکومت کے موقف کو کمزور کردیا ہے۔ امیت شاہ ایک عرصہ سے بیمار چل رہے ہیں اور کورونا وباء کے دوران انہیں دو مرتبہ ہاسپٹل میں شریک کیا گیا ۔ ہاسپٹل سے امیت شاہ کے ڈسچارج ہونے کی خبریں تو آرہی ہیں لیکن وہ منطر کے بجائے ابھی پس منظر میں ہیں۔ مودی اپنے صلاح کار کی علالت سے تنہا ہوگئے کیونکہ حکومت میں امیت شاہ کی طرح کوئی اور بااعتماد رفیق نہیں ہوسکتا۔ ویسے بھی نریندر مودی کی باڈی لینگویج پہلے کی طرح متحرک ، چست اور جارحانہ نہیں رہی ۔ انہوں نے لاک ڈاون کے دوران اپنا حلیہ تبدیل کرلیا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ دوست کی علالت نے انہیں نیا روپ دھارن کرنے کے لئے مجبور کردیا ۔ بسا اوقات ایسا لگتا ہے جیسے نریندر مودی وزیراعظم کا دفتر چھوڑ کر آشرم جانے کی تیاری میں ہیں۔ قبل اس کے کہ عوام سیاسی سنیاس دے دیں ، وہ خود سنیاس کی تیاری میں دکھائی دے رہے ہیں۔

کورونا کی وباء نے اگرچہ ساری دنیا کی معیشت کو ہلاکر رکھ دیا ہے لیکن جن ممالک میں حکمراں رعایا پرور اور تجربہ کار تھے، انہوں نے نقصانات پر بڑی حد تک قابو پالیا۔ ہندوستان میں حکومت کورونا سے نمٹنے اور معیشت کے سدھار دونوں محاذوں پر ناکام ثابت ہوئی ہے۔ جس وقت ملک میں کیسیس کی تعداد معمولی تھی ، اس وقت سخت ترین لاک ڈاون نافذ کیا گیا اور اب جبکہ کیسیس اور اموات کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے حکومت ان لاک پر عمل کر رہی ہے۔ دراصل عوام کو جان بوجھ کر کورونا کے منہ میں ڈھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تین ماہ طویل لاک ڈاؤن نے زندگی کے ہر شعبہ پر مضر اثرات مرتب کئے ہیں۔ روزگار سے محرومی ، آمدنی کے وسائل کی کمی اور مہنگائی نے غریب اور متوسط طبقات کو سطح غربت کے قریب پہنچادیا ہے۔ کئی علاقوں میں بھوک مری کے حالات ہیں اور قرض دینے کیلئے بھی کوئی تیار نہیں۔ دو وقت کے کھانے کا انتظام غریب اور متوسط خاندانوں کیلئے چیلنج بن چکا ہے۔ ایک طرف کورونا وباء سے بچنے کے احتیاطی قدم اٹھانے ہیں تو دوسری طرف خاندان کی پرورش یہ بوجھ خاندان کے سربراہوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کرچکا ہے۔ حکومتوں کو اہل سروت طبقہ کی فکر لاحق ہے۔ سماجی عدم مساوات اور معاشی و مالیاتی پریشانیوں نے تعلیم کے شعبہ کو تاریک بنادیا ہے۔ پرائمری سے لے کر پوسٹ گریجویشن تک تعلیمی سال کے آغاز کی کوئی ضمانت نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ جاریہ سال صفر تعلیمی سال کے طورپر درج کیا جائے ۔ مغربی ممالک کی نقل کرتے ہوئے آن لائین کلاسیس کا ڈھونگ رچا گیا۔ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ سہولتوں کے بغیر غریب اور متوسط طبقات کس طرح آن لائین کلاسیس میں شریک ہوسکیں گے ۔ مغربی ممالک میں تمام تر سہولتیں موجود ہیں اور وہاں آن لائین کلاسیس کا انعقاد باآسانی ممکن ہے۔ لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں ہزاروں صنعتیں بند ہوچکی ہیں ۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے نہ صرف ملازمین کی تخفیف کردی بلکہ موجودہ ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کی ہے۔ لاک ڈاون کے اثر سے غریب ، امیر میں کوئی فرق باقی نہیں رہا ، جو جتنا بڑا ہے ، اسے اتنا ہی نقصان ہوا ہے۔ روزگار سے محروم لاکھوں مائیگرنٹ ورکرس اپنے آبائی مقامات میں حکومت کی امداد کے منتظر ہیں۔ نفسا نفسی کا یہ عالم ہے کہ سماج میں کوئی بھی دوسرے کا سہارا بننے تیار نہیں۔ موجودہ حالات پر یہ شعر عوام کے حوصلے میں اضافہ کا سبب بن سکتا ہے ؎
شاخیں اگر رہیں تو پتے بھی آئیں گے
یہ دن اگر برے ہیں تو اچھے بھی آئیں گے