۔’کیا صرف مسلم ہی کمیونٹی مسائل اٹھائیں‘؟۔

,

   

پروفیسر ہلال نے انتخابی سیاست کی طرف کی جانب کمیونٹی کے جھکاؤ کو یقینی بنانے کی بات کو زیر بحث لاتے ہوئے استفسار کیا۔ نویں لوک سبھا1984-89کافی تعداد میں مسلمان اراکین اسمبلی تھی۔

مگر ان سالوں میں زیادہ فرقہ وارانہ فسادات رونما ہوئے‘‘۔ مذکورہ حقائق اسوسیٹ پروفیسر ہلال احمد سنٹر فار اسٹاڈیز برائے ڈیولپنگ سوسائٹیزنے غلام عارف احمد صنعت کارکی جانب سے پہل کے طور پر سماجی مسائل پر بات چیت کے پلیٹ فارم سے ’’مسلمانوں کے مسائل اور نمائندگی ‘ اس کے راستے‘‘ کے عنوان پر مخاطب تھے۔

پروفیسر احمد نے 2013کے مظفر نگر فسادات کی طرف اشارہ کیا ‘ جس ضلع کی نمائندگی دو مسلم اراکین اسمبلی اور دو اراکین پارلیمنٹ کررہی تھے۔ان میں سے جو مسلما ن تھے اور دوسرے سماج وادی پارٹی کے تھے ‘ لہذا سمجھا جاتاتھا کہ وہ موافق مسلم تھے۔

احمد نے استفسار کیا کہ’’ کیا یہ ضروری ہے مسلمانوں ہونے کی وجہہ سے مسلم مسائل اٹھائیں؟کیا صرف ہم مسلمانوں اراکین پارلیمنٹ اور اراکی اسمبلی سے ہی مسلمانوں کے مسائل پر بات کرنے کی توقع کررہے ہیں؟‘۔ احمد نے سروے دیکھاتا ہے کہ مسلمان ووٹ مسلم امیدواروں کو نہیں دیتے ۔

جیتنے والے امیدوار کا وہ جائزہ لیتے ہیں۔احمد نے اپنی بات میں اس با ت کی طرف بھی اشارہ کیا کہ کروڑ ہا مسلمان جو ملک کی مجموعی آبادی کا تیرہ فیصد حصہ ہے عبادت او رعقائد کے مختلف طریقو ں پر عمل کرتے ہیں‘ لسانی بنیادوں پر بھی الگ الگ ہیں‘ وہ کبھی ایک تھے اور نہ کبھی ایک ہوں گے۔

اقتصادی پریشانیاں دیگر کے طبقات کے مقابلے مسلمانوں میں بہت زیادہ ہیں۔انہو ں نے کہاکہ یہی وجہہ ہے کہ کوئی طوری طرح مسلمانوں کے حاشیہ پر پہنچ جانے کی بات نہیں کرتا۔کچھ مسلمانوں غربت کی وجہہ سے حاشیہ پر ہیں ‘ کچھ جغرافیائی مقام کی وجہہ سے تو کچھ لسانی بنیاد پر ہیں جن کی شناخت کرنی پڑتی ہے۔

احمد نے کہاکہ جب حاشیہ پر پہنچے کی بات زیر تبصرہ ہے تو ہم یہ دیکھنا ضروری ہے کس طرح کے وسائل دستیاب ہیں۔ انہو ں نے پوچھاکہ جب پبلک سیکٹر میں کوئی ملازمت تشکیل نہیں پارہی ہے‘ کمیونٹی کے وسائل کو آگے لانا ہے۔

کمیونٹی کی دولت کتنی ہے‘ جو وقف جائیدادوں کی شکل میں پڑی ہے‘ کیا اس کا استعمال سماج کی مدد کے لئے ہورہا ہے۔تاہم احمد نے کہاکہ یہ وہ راستے ہیں جس پر تمام کمیونٹی حاشیہ پر پہنچ گئی ہے۔

تاہم انہو ں نے گجرات ٹورازم کے براؤ چر سے احمد آباد کی تاریخی سدی سیدی مسجد کو ہٹائے جانے پر مسلمانوں کے ردعمل کا حوالہ دیا ‘ اس ٹرین میں سفر کے دوران موبائیل فون پر وعلیکم سلام کہنے سے گھبراہٹ‘ دیگر لوگوں کی طرح کپڑے پہنے اور داڑھی رکھنے سے گریز کی بات بھی کہی۔

ممبئی میریر سے بات کرتے ہوئے احمد نے کہاکہ 2019کی الیکشن میم ’’ نرم ہندوتوا‘‘ کی دیکھائی دے رہی ہے جو ہر سیاسی جماعت کا کھیل بنا ہوا ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت راست طور پر مسلمانوں سے رجوع نہیں ہورہی ہے‘ مگر ہم غیر منظم چیانلوں کو یہ کام کرتے دیکھ رہے ہیں۔

پچھلے چارسالوں میں مسلمانوں کی سرگرم سیاسی ’’ بیدخلی‘‘ کے متعلق پوچھنے پر احمد نے اپنے جواب میں کہاکہ 1950سے اب تک مسلمانوں نے جو کچھ بھی کیاہے وہ اپنے دم پر کیاہے۔جب انہیں احساس ہوا کہ سرکاری ملازمتوں میں انہیں موقع نہیں ہے تو وہ اعلی تعلیم کی طرف راغب ہوئے ۔

جب وہ تعلیم کے متعلق جذباتی ہوئی تو بین الاقوامی معیشت کادور شروع ہوا اور دوسروں کی طرح مسلما ن بھی خانگی شعبہ کی طرف اپنا رخ موڑدئے