آج ‘ دوسرے مرحلے کی پولنگ

   

اک نقش پا ہے دور مجھے جانا ہے وہاں
لے کر چلے چراغ تمنا کو ساتھ ہم
ہندوستان میں پارلیمانی انتخابات کی سرگرمیاں عروج پر پہونچ چکی ہیں۔ دوسرے مرحلے کیلئے آج 87 پارلیمانی حلقوں کیلئے ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ پہلے مرحلے میں جملہ 102 حلقوں کیلئے ووٹ ڈالے گئے تھے ۔ اس طرح آج دوسرے مرحلے میں 87 حلقوں کے ساتھ جملہ 189 حلقوں کیلئے ووٹنگ مکمل ہوجائے گی اور خاطر خواہ تعداد پر عوامی رائے الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں بند ہوجائے گی ۔ پہلے مرحلے تک انتخابی عمل ایسا لگ رہا تھا کہ پرسکون انداز میں چل رہا ہے ۔ جیسے ہی پہلے مرحلے میں 102 حلقوں کیلئے ووٹنگ ہوئی اور یہ تاثر عام ہونے لگا کہ اس مرحلے میں کانگریس زیر قیادت انڈیا اتحاد نے مودی زیر قیادت این ڈی اے اتحاد کی پیشرفت پر روک لگانے میں کچھ کامیابی حاصل کی ہے تو پھر بی جے پی نے ساری انتخابی مہم کا رخ ہی تبدیل کردیا ۔ بی جے پی اور اس کے قائدین خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کو شائد یہ احساس ہوگیا کہ وہ اب عوامی مسائل یا پھر گذشتہ دس برس کی حکومت کی کارکردگی کی بنیاد پر انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کرپائیں گے تو پھر وزیر اعظم کی سطح سے ہی انتخابی مہم کا رخ تبدیل کردیا گیا اور خود وزیر اعظم باضابطہ طور پر ہندو ۔ مسلم کی سیاست پر اتر آئے ۔ بی جے پی قائدین بھی اس کا سلسلہ شروع کرچکے ہیں۔ بی جے پی سوشیل میڈیا کی جانب سے مختلف پلیٹ فارمس پر انتہائی اشتعال انگیز ویڈیوز چلانے شروع کردئے گئے ہیں۔ سماج میں نفرت کو ہوا دینے کی مہم شدت اختیار کر گئی ہے ۔ عوام میں خلیج اور تفریق پیدا کرنے اور اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کی حکمت عملی پر انتہائی منظم انداز میں عمل شروع ہوچکا ہے ۔ اب مسائل پر بات کرنے سے بی جے پی اور اس کے قائدین کترانے لگے ہیں۔ اپنے انتخابی منشور پر بات کرنے اور اس کی تشہیر کرنے کی بجائے کانگریس کے انتخابی منشور کے تذکرے زیادہ ہونے لگے ہیںاور اس پر ریمارکس کرتے ہوئے عوام میں غلط فہمیاں اور خوف پیدا کیا جا رہا ہے ۔ ترقی کی کوئی بات نہیں ہو رہی ہے اور نہ ہی دس سالہ کارکردگی سے عوام کو واقف کروایا جا رہا ہے ۔
پہلے مرحلے میں جس طرح سے مہم چلائی گئی تھی وہ بڑی حد تک ٹھیک رہی تھی ۔ اس میں اشتعال انگیزی اور نفرت انگیز تقاریر سے ممکنہ حد تک گریز کیا گیا تھا اور بلند بانگ دعووں کے ساتھ عوام کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ جیسے ہی پہلے مرحلے کی پولنگ کے بعد مختلف گوشوں سے یہ تاثر عام ہونے لگا کہ پہلے مرحلے میں بی جے پی کو نقصان ہوا ہے اور انڈیا اتحاد نے بازی مارلی ہے اس وقت سے ہی بی جے پی نے اپنے تیور تبدیل کرلئے ۔ جارحانہ موقف اختیار کرتے ہوئے مسلمانوں کو نہ صرف تقاریر میں نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا گیا بلکہ سوشیل میڈیا پلیٹ فارمس کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے باضابطہ اور منظم انداز میں مسلمانوں کی تضحیک کی جا رہی ہے اور ان کی منفی تصویر پیش کی جا رہی ہے ۔ ایسی کوششوں کا مقصد اکثریتی برادری کے ووٹوں کو مجتمع کرنا ہے ۔ اکثریتی برادری کی تائید اور ان کے ووٹ حاصل کرنا ہے ۔ تاہم یہ تاثر بھی عام ہونے لگا ہے کہ یہ کوششیں الٹا بی جے پی کیلئے مضر ثابت ہوسکتی ہیں کیونکہ لوگ بیروزگاری ‘ مہنگائی اور دوسرے مسائل سے پریشان ہیں۔ ان کے سامنے ہندو۔ مسلم کی سیاست کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ملک اور قوم کی ترقی کی بات کی جائے ۔ ان کے بنیادی مسائل کو حل کیا جائے ۔ کسانوں کو راحت دی جائے ۔ نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا جائے ‘ خواتین کو تحفظ فراہم کیا جائے اور سماج سے نفرت اور اشتعال کی سیاست کا سلسلہ ختم کیا جائے ۔ مثبت سوچ سے کام ہوسکے ۔
دوسرے مرحلے میں جن ریاستوں اور جن حلقوں میں ووٹ ڈالے جانے ہیں وہاں کے رائے دہندوں کو ساری صورتحال کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے ۔ منفی اور بیمار سوچ کے ساتھ کام کرنے والوں کو اپنے ووٹ کے ذریعہ سبق سکھائے جانے کی ضرورت ہے ۔ تعمیری بات کرنے والوں اور ملک کیلئے جدوجہد کرنے اور مسائل پر بات کرنے اور مسائل کو حل کرنے کا تیقن دینے والوں کیلئے عوام کو آگے آنا چاہئے ۔ نفرت کی سیاست کو ختم کرنے کیلئے ووٹ دینا چاہئے ۔ ملک کے مستقبل کا تعین کرنے کیلئے یہ انتخابات اہمیت کے حامل ہیں اور ووٹرس کو پوری ذمہ داری کے ساتھ اپنے ووٹ کا استعمال کرنا چاہئے ۔