آرین خان کو کلین چٹ

   

ہاتھ باندھے کیوں کھڑے ہو حادثوں کے سامنے
حادثے کچھ بھی نہیں ہیں حوصلوں کے سامنے
بالی ووڈ سوپر اسٹار شاہ رخ خان کے فرزند آرین خان کو ڈرگس کیس میں کلین چٹ دیدی گئی ہے ۔ نارکوٹس کنٹرول بیورو نے چارچ شیٹ میں آرین خان کا نام شامل نہیں کیا جبکہ انہیں چند ماہ قبل گرفتار کرتے ہوئے تین ہفتوں تک جیل بھیجا گیا تھا ۔ آرین خان کی گرفتاری پر سارے ملک میں مباحث شروع ہوگئے تھے اور ہر مسئلہ کو ہندو۔ مسلم اور فرقہ وارانہ تعصب کی نظر سے دیکھنے والے زر خرید ٹی وی اینکرس نے اس پر بہت زیادہ واویلا مچایا تھا ۔ منشیات کے تار کہیں سے کہیں جوڑنے کی کوشش کی گئی تھی اور میڈیا ٹرائیل کے ذریعہ آرین خان کو خاطی اور ملزم قرار دینے سے بھی گریز نہیں کیا گیا تھا ۔ خود جن عہدیداروں نے آرین خان کو گرفتار کیا تھا ان کا طرز عمل انتہائی مشکوک تھا ۔ انہوں نے خود خانگی افراد کی مدد حاصل کی تھی ۔ یہ تک دعوے کئے گئے تھے کروڑہا روپئے کی معاملت کرنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ اس کیلئے باضابطہ بات چیت بھی ہوئی تھی تاہم کوئی معاملت نہیں ہو پائی تھی ۔ بعد میں جو واقعات پیش آئے تھے ان سے واضح ہوگیا تھا کہ آرین خان کو فرضی مقدمہ میں پھانسنے کی کوشش کی گئی تھی اور ممبئی کے نارکوٹس کنٹرول بیورو کے عہدیداروں نے اس میں جانبداری کا مظاہرہ کیا تھا اور انہوں نے رقم اینٹھنے کی کوشش بھی کی تھی ۔ ان عہدیداروں کے خلاف مہاراشٹرا کے وزیر نواب ملک نے بھی جنگ چھیڑ دی تھی اور ان کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی تھی ۔ اب خود نارکوٹس کنٹرول بیورو نے اس کیس میں 6000 ہزار صفحات پر مشتمل چارچ شیٹ عدالت میں پیش کردی ہے جس میں آرین خان کا نام شامل نہیں کیا گیا ہے ۔ اس کیس میں جملہ 23 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا اور چارچ شیٹ میں 20 افراد کا نام رکھا گیا ہے ۔ چارچ شیٹ میں کہا گیا ہے کہ تمام ملزمین کے قبضہ سے منشیات برآمد ہوئی ہیں سوائے آرین خان اور موہاک کے ۔ این سی بی آفیسر سنجے کمار سنگھ نے یہ بیان پڑھ کر سنایا ۔ ایجنسی کا کہنا ہے کہ آرین خان اور پانچ دوسروں کے خلاف اس کیس میں کوئی واضح ثبوت دستیاب نہیں ہیں۔ اس سے نواب ملک کے دعووں کی توثیق ہوگئی ہے جنہوں نے ثبوت نہ ہونے کی بات کہی تھی ۔
اس کے علاوہ این سی بی کے سربراہ ایس این پردھان نے یہ اعتراف بھی کیا کہ ابتدائی تحقیقات میں بے قاعدگیاں ہوئی ہیں۔ نواب ملک اور دوسروں کی جانب سے بارہا کہا جا رہا تھا کہ تحقیقات من مانی انداز میں چلائی جا رہی تھیں۔ این سی بی کے عہدیدار سمیر وانکھیڈے نے خانگی دلالوں کی مدد سے یہ کیس بنانے کی کوشش کی تھی ۔ این سی بی سربراہ نے واضح کیا کہ جو عہدیدار تحقیقات میں خامیوں کے ذمہ دار ہیں ان کے خلاف کارروائی بھی کی جائے گی ۔ اس کیس میں آرین خان کو تین ہفتوں تک جیل میں رہنا پڑا تھا اور ان تینوں ہفتوں میں زر خرید اینکرس نے واویلا مچانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی ۔ اب جبکہ خود این سی بی نے آرین خان کو کلین چٹ دیدی ہے اور یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ تحقیقات میں بے قاعدگیاں ہوئی ہیں تو ان اینکرس کی زبانیں گنگ ہوجائیں گی ۔ وہ ان عہدیداروں کے خلاف کوئی لب کشائی نہیں کرینگے جنہوں نے فرضی کیس میں ایک نوجوان کو پھانسنے کی کوشش کی تھی ۔ ممبئی کی این سی بی ٹیم کی جانب سے بلیک میلنگ کے الزامات سامنے آنے کے بعد اس کیس کو این سی بی دہلی کی ٹیم کے حوالے کردیا گیا تھا جس نے تحقیقات کے بعد یہ رپورٹ پیش کی ہے ۔ سمیر وانکھیڈے سمیت دوسرے جن عہدیداروں نے اس کیس کی ابتداء میں تحقیقات کی تھی ان سب کا طرز عمل مشکوک ہوگیا ہے اور ان کی اپنے فرائض کے تئیں سنجیدگی خود مشکوک ہوگئی ہے اور ان کے خلاف تحقیقات اور کارروائی ہونی چاہئے ۔
اصل سوال صرف آرین خان یا شاہ رخ خان کا نہیں ہے بلکہ اصل سوال تحقیقاتی ایجنسیوں کی جانب سے بلیک میلنگ اور بے قاعدگیوں کا ہے ۔ عہدیداروں کی بدعنوانیوں اور کرپشن کا ہے ۔ کسی کو نشانہ بنائے جانے کا ہے ۔ ان سارے امور کو ذہن نشین رکھتے ہوئے سارے معاملے کی جانچ ہونی چاہئے ۔ خانگی دلالوں کے رول کے تعلق سے بھی سوال پیدا ہوتے ہیں اور ان کی بھی تحقیقات ہونی چاہئے ۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کو اپنی پیشہ وارانہ دیانت پر کوئی سمجھوتہ کئے بغیر کام کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ان کا وجود بھی بے معنی ہو کر رہ جائیگا اور اس سے جو اصل خاطی ہوتے ہیں ان کو کیفر کردار تک پہونچانے میں مشکل پیدا ہوجائیگی ۔