آندھرا پردیش میں تبدیلی کی لہر، اقلیتوں کا رجحان چندرا بابو نائیڈو کے حق میں

   

تلگودیشم سیکولرازم پر قائم رہیگی، جگن کو اپوزیشن سے سخت مقابلہ درپیش، کانگریس کیلئے بقاء کی جنگ
حیدرآباد۔/27 مارچ، ( سیاست نیوز) آندھرا پردیش میں قانون ساز اسمبلی اور لوک سبھا کے چناؤ کے سلسلہ میں انتخابی مہم کا آغاز ہوچکا ہے۔ متحدہ آندھرا پردیش کی تقسیم کے بعد یہ پہلا الیکشن ہے جب تین اپوزیشن پارٹیاں متحد ہوکر برسراقتدار پارٹی کا مقابلہ کررہی ہیں۔ ریاست کی تقسیم کے بعد اقتدار میں رہنے والی تلگودیشم کو 2019 میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ صدر تلگودیشم این چندرا بابو نائیڈو ریاست میں دوبارہ اقتدار کیلئے ہر ممکن جدوجہد کررہے ہیں اور مخالف حکومت ووٹ کی تقسیم روکنے کیلئے انہوں نے این ڈی اے میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔ چندرا بابو نائیڈو بنیادی طور پر سیکولر نظریات کے حامل رہے ہیں اور انہوں نے گجرات فسادات اور فرقہ وارانہ سیاست پر بارہا بی جے پی اور نریندر مودی کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اسمبلی اور لوک سبھا چناؤ میں بہتر مظاہرہ کیلئے چندرا بابو نائیڈو نے پہلے پون کلیان کی جنا سینا سے مفاہمت کی اور پھر بی جے پی سے اتحاد کا فیصلہ کیا۔ آندھرا پردیش میں مسلم اقلیت مجموعی آبادی کا تقریباً 9 فیصد ہیں اور 175 اسمبلی حلقہ جات میں 30 سے زائد حلقے ایسے ہیں جہاں اقلیتی رائے دہندے بادشاہ گر کا موقف رکھتے ہیں۔ جگن موہن ریڈی حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی سے غیر مطمئن اقلیتوں نے مجوزہ چناؤ میں تلگودیشم کی تائید کا فیصلہ کیا لیکن بی جے پی سے دوستی کے نتیجہ میں مسلم رائے دہندوں میں کسی قدر الجھن پائی جاتی ہے۔ چندرا بابو نائیڈو نے اقلیتی قائدین اور کارکنوں کے علحدہ اجلاس منعقد کرتے ہوئے بی جے پی سے مفاہمت کی وضاحت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تلگودیشم پارٹی نے وائی ایس آر کانگریس پارٹی کو شکست دینے کیلئے موقتی طور پر اتحاد کیا ہے جبکہ سیکولرازم اور جمہوری اصولوں سے انحراف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ چندرا بابو نائیڈو نے دعوت افطار میں مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی نے مفاہمت کی پیشکش کی لہذا الیکشن کی حد تک مفاہمت کی گئی ہے تاکہ اپوزیشن کے ووٹ تقسیم ہونے سے بچ جائیں۔ آندھرا پردیش میں لوک سبھا کی 25 اور اسمبلی کی 175 نشستوں کیلئے تلگودیشم زیر قیادت اپوزیشن اتحاد اور برسراقتدار وائی ایس آر کانگریس پارٹی میں راست مقابلہ رہے گا۔ کانگریس جو آندھرا پردیش میں اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہی ہے اس نے وائی ایس شرمیلا کو پردیش کانگریس کمیٹی کا صدرنشین مقرر کرتے ہوئے چناؤ میں بہتر مظاہرہ کی توقعات وابستہ کی ہیں۔ کانگریس پارٹی ابھی بھی انتخابی دوڑ میں کافی پیچھے دکھائی دے رہی ہے اور پارٹی کو عوام کا اعتماد حاصل کرنے کیلئے مزید وقت درکار ہوگا۔ آندھرا پردیش کی تقسیم کی آندھرائی عوام نے سختی سے مخالفت کی تھی لیکن کانگریس نے اپنے وعدہ کی تکمیل کی لہذا آندھرائی عوام نے کانگریس کو ایسی سیاسی سزاء دی ہے کہ لوک سبھا اور اسمبلی دونوں میں آندھرا پردیش سے کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ انتخابی مہم میں وائی ایس جگن موہن ریڈی اور چندرا بابو نائیڈو دونوں نے اقلیتی رائے دہندوں پر توجہ مرکوز کردی ہے۔ اگرچہ رائے دہی کیلئے ابھی وقت ہے لیکن تازہ ترین رجحانات سے یہ اندازہ ہورہا ہے کہ اقلیتوں کی بیشتر آبادی نے چندرا بابو نائیڈو کو اقتدار کا موقع دینے کی ٹھان لی ہے۔ وائی ایس جگن موہن ریڈی کے پانچ سالہ دور حکومت سے عوام میں کسی قدر ناراضگی ہے اور بی جے پی سے دوستی کے باوجود اقلیتوں کی تائید چندرا بابو نائیڈو کے حق میں دیکھا جانا انتخابی نتائج پر ضرور اثر انداز ہوگا۔ آندھرا پردیش اسمبلی میں 2019 نتائج کے تحت وائی ایس آر کانگریس پارٹی کو 151 اور تلگودیشم کو 23 نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ جنا سینا کو محض ایک نشست پر اکتفاء کرنا پڑا تھا۔ کانگریس، بی جے پی اور بائیں بازو جماعتوں کا نتیجہ صفر رہا۔ الیکشن سے عین قبل اسمبلی میں تلگودیشم ارکان کی تعداد گھٹ کر 18 ہوچکی ہے۔ جگن حکومت کی انتقامی کارروائیوں سے برہم ہوکر چندرا بابو نائیڈو نے یہ کہتے ہوئے اسمبلی کا بائیکاٹ کردیا کہ وہ چیف منسٹر کی حیثیت سے اسمبلی میں قدم رکھیں گے۔ چندرا بابونائیڈو کے عہد کو کامیاب بنانے میں اقلیتوں اور کمزور طبقات کا اہم رول رہے گا۔ چندرا بابو نائیڈو کو یقین ہے کہ تبدیلی کی لہر انہیں اقتدار تک پہنچائے گی۔ اب جبکہ انتخابی مہم کیلئے سیاسی پارٹیوں کے پاس کافی وقت ہے دیکھنا ہوگا کہ الیکشن سے عین قبل تک اقلیتی رائے دہندوں کا رجحان تلگودیشم کے حق میں برقرار رہے گا یا پھر جگن کوئی کرشمہ کرپائیں گے۔1