آندھی سے کوئی کہہ دے اوقات میں رہے

,

   

اترپردیش بچاؤ مہم … اورنگ زیب ، شیواجی ، نریندر مودی
شادی کی عمر کا تعین … شریعت پر تازہ وار

رشیدالدین
کیا اترپردیش کی زمین بی جے پی کے پیروں سے کھسکنے لگی ہے؟ کیا مودی کو اپنے شاگرد یوگی ادتیہ ناتھ کا زوال دکھائی دے رہا ہے ؟ یہ وہ سوالات ہیں جو وزیراعظم کے دورہ کاشی کے بعد سیاسی حلقوں میں موضوع بحث بن چکے ہیں۔ نریندر مودی کا گنگا میں اشنان ، مندر میں پوجا ارچنا ، سر سے پاؤں تک ویراٹ ہندو کی طرح لباس اور دورہ کے موقع پر خطاب سے مودی کا اندرونی خوف جھلک رہا تھا ۔ یوں تو مودی نے اس سے قبل بھی مندروں اور پہاڑی گپھاؤں میں اپنے کٹر ہندو ہونے کا ثبوت دینے کی کوشش کی لیکن کاشی کا دورہ سب سے جداگانہ اور مختلف تھا۔ مودی جہاں کہیں ہوں ، وہ اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کا لوہا منواتے ضرور ہیں۔ اگر سیاسی اداکاری کے زمرہ میںکوئی ایوارڈ ہوتا تو آسکر اور دادا صاحب پھالکے ایوارڈس مودی کے حصہ میں آتے۔ اگر دلیپ کمار اور راج کپور کے دور میں مودی ہوتے تو شائد وہ دونوں کو پیچھے چھوڑ دیتے۔ یہ بات ہم نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ ہر سیاستداں اور فلمی اداکاروں کو اس کا اعتراف ہے۔ موقع اور محل کے اعتبار سے عوام کو متاثر کرنا کوئی مودی سے سیکھے۔ اداکاری جب تک اپنی حدود میں رہے تو عوام پسند کرتے ہیں لیکن جب اوور ایکٹنگ ہوجائے تو فلم فلاپ ہوجاتی ہے۔ کچھ یہی حال نریندر مودی کا ہے۔ گزشتہ 7 برسوں سے ہر موقع پر اداکاری اور ایکٹنگ دکھائی دینے لگی جس سے عوام بیزار ہوچکے ہیں۔ کاشی کے دورہ کے موقع پر ہندو توا کے جذبہ کو پروان چڑھانے اور ہندوؤں کے جذبات کو مشتعل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور اپنی ترکش میں موجود تمام تیروں کا استعمال کیا۔ اترپردیش اسمبلی انتخابات میں کامیابی کیلئے مودی نے ابھی سے مہم تیز کردی ہے۔ ترقیاتی کاموں کے آغاز کی آڑ میں مندروں کا درشن جاری ہے ۔ یو پی کی انتخابی مہم کو زعفرانی رنگ میں رنگ دیا گیا اور مودی کا ہر قدم ہندوتوا کی سمت پیش قدمی ہے۔ بی جے پی جب کبھی کمزور ہوئی اس نے جذباتی اور متنازعہ مسائل کو چھیڑ دیا ۔ اسمبلی انتخابات ریاست کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے کارناموں پر لڑے جائیں لیکن بی جے پی کے پسندیدہ موضوعات میں اورنگ زیب ، محمد علی جناح اور پاکستان ، گاؤ رکھشا ، بیف ، لو جہاد ، ٹوپی ، داڑھی ، ابا جان اور بھائی جان شامل ہیں۔ ان تمام موضوعات کا مجموعہ مسلمان اور اسلام ہیں۔ دونوں کو دہشت گردی سے جوڑے بغیر چین نہیں پڑتا۔ حالانکہ تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک اور بھید بھاؤ نہ کرنے کا دستور پر حلف لیا گیا ہے ۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس ہی نہیں ، سب کا وشواس کا نعرہ بھی زبان پر محض انتخابی جملہ کی طرح برقرار ہے۔ کاشی کے دورہ کو گودی میڈیا نے لائیو پیش کیا اور مودی کی ہر حرکت اور ہر قدم کی کچھ ایسے تعریف کی جیسے کوئی عجوبہ ہو۔ مودی بھکت اینکرس تعریفوں کے پل باندھنے میں ایک دوسرے کو شکست دینے میں مصروف تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے تعریف کا کوئی مقابلہ چل رہا ہو۔ کاشی میں مودی جس وقت خطاب کر رہے تھے، ان کی جملہ بازی کا پول کھل گیا۔ ٹیلی پرامپٹر مشین کی مدد سے مودی تقریر پڑھ رہے تھے۔ مودی جو من کی بات کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، کاشی میں کسی کی لکھی ہوئی باتوں کو دہراتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ مندر کے اندر بیٹھ کر بھی مودی نے نفرت کی مہم کو ترک نہیں کیا۔ مودی کی تقریر ہو اور پھر انتخابی ماحول ہو تو پھر تقریر میں مغل حکمرانوں کا ذکر نہ ہو کیسے ممکن ہے۔ مودی نے کہا کہ جب کوئی اورنگ زیب آیا اس کے مقابلہ کیلئے شیواجی ابھرا۔ ظاہر ہے کہ مودی وہی بولی بول رہے تھے جو آر ایس ایس اور سنگھ پریوار نے سکھائی تھی۔ ویسے مودی کی ڈگری اور قابلیت آج تک بھی مستند نہیں ہے ، لہذا ان سے تاریخ کے عدم مطالعہ کی شکایت نہیں کی جاسکتی۔ انہیں کرسی پر رہنا ہو تو وہی کہنا پڑے گا جو سکھایا گیا ۔ اورنگ زیب اور شیواجی کو مسلمانوں اور ہندوؤں کی علامت کے طو پر پیش کرنے سے قبل کاش تقریر لکھنے والے نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہوتا۔ دونوں کی فوج میں اہم عہدوں پر فائز فوجی عہدیدار کون تھے۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ اورنگ زیب کی فوج میں ہندو اور شیواجی کی فوج میں مسلمان اہم ذمہ داری پر مامور تھے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں نے صرف عہدے حاصل نہیں کئے بلکہ بادشاہ وقت کے ساتھ اپنی وفاداری کا ثبوت دیا لیکن افسوس کہ تنگ نظر اور متعصب ذہنیت نے اورنگ زیب کو مخالف ہندو اور شیواجی کو ہندوؤں اور ہندوتوا کے ہیرو کے طور پر پیش کیا ۔ تلنگانہ اسٹیٹ آرکائیوز اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں دستاویزات موجود ہیں ، جن سے اورنگ زیب کی مذہبی رواداری کا پتہ چلتا ہے۔ اورنگ زیب کی فوج میں راجہ جئے سنگھ کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں دکن کا وائسرائے مقرر کیا گیا تھا۔ راجہ جئے سنگھ کو ترقی دے کر ان کے تحت 7000 فوجی اور 7000 گھوڑسوار دیئے گئے ۔ جئے سنگھ کو عمدۃ الملک اور راجہ کے خطاب سے نوازا گیا تھا اور یہ خطاب مغل حکمرانوں کا اعلیٰ ترین فوجی اعزاز تھا جو عام طور پر شہزادوں اور قریبی رشتہ داروں کو دیا جاتا تھا۔ تاریخ کا مطالعہ کئے بغیر صرف نام دیکھ کر مخالف کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ اب تو تاریخ کو تبدیل کرتے ہوئے مسلم حکمرانوں کو حملہ آور اور مخالف ہندو کے طور پر پیش کرنے کی تیاری ہے۔ دہلی میں اورنگ زیب سے موسوم سڑک کا نام تبدیل کردیا گیا ۔ نام کی تبدیلی سے نشانیاں ختم نہیں ہوتیں۔ اگر تاج محل کا نام تبدیل کردیا جائے تو کیا شاہجہاں کے نام کو بھلایا جاسکتا ہے؟ مغل حکمرانوں سے مودی کو نفرت لیکن مغلوں کی نشانی لال قلعہ سے قوم سے خطاب پر مجبور ہیں۔ اگر اتنی نفرت ہے تو پھر پرچم کشائی کے لئے کسی اور مقام کا تعین کریں۔ ہر سال یوم جمہوریہ اور یوم آزادی کو قومی پرچم مسلم حکمرانوں کی نشانی کا تاج بنتا ہے۔ پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں۔
نریندر مودی حکومت نے شریعت پر تازہ وار کیا ہے۔ لڑکیوں کی شادی کی عمر 21 سال مقرر کرنے کیلئے کابینہ میں فیصلہ کیا گیا اور بہت جلد پارلیمنٹ میں قانون منظور کیا جائے گا۔ لڑکیوں کی شادی کی عمر کو طئے کرنا اور وہ بھی نریندر مودی کی جانب سے تو یہ یقیناً مضحکہ خیز ہے۔ مودی لڑکیوں کی شادی اور ان کی ضرورتوں اور انتظامات سے واقف کہاں ہیں۔ شادی کی عمر کیا ہو ، اس کا فیصلہ تو وہی ٹھیک طور پر کرسکتا ہے جس کی اولاد ہو۔ مودی تو اولاد تو دور کی بات ہے خود اپنی شریک حیات کو قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ کابینہ میں موجود ایسے وزراء جن کے گھر میں بیٹیاں ہیں اگر ان سے تنہائی میں رائے حاصل کی جائے تو یقیناً وہ 21 سال کی حد مقرر کرنے کی مخالفت کر یں گے۔ جس کے گھر میں بیٹیاں شادی کیلئے بیٹھی ہیں ، اس کا دل جانتا ہے کہ موجودہ حالات میں بیٹی کی شادی کرنا کس قدر دشوار کن مرحلہ ہے۔ ایرکنڈیشنڈ چیمبرس میں بیٹھ کر آر ایس ایس کے اشارہ پر اس طرح کے فیصلے عوام کیلئے قابل قبول نہیں ہوسکتے۔ لڑکی کی شادی کا مسئلہ کسی ایک مذہب کا نہیں ہے بلکہ ہر مذہب اور ہر فرقہ میں ہر باپ یہی چاہتا ہے کہ جلد سے جلد اس کی بیٹی کے ہاتھ پیلے کردیئے جائیں لیکن مودی حکومت 21 سال تک شادی روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ شریعت اسلامی میں مداخلت کا یہ دوسرا موقع ہے ۔ طلاق ثلاثہ پر پابندی کے بعد یہ دوسری مرتبہ شریعت میں مداخلت کی کوشش کی جارہی ہے ۔ صرف مسلمان ہی نہیں دیگر مذاہب بھی اس تجویز کو قبول نہیں کریں گے۔ حکومت کی تجویز پر ایک عام آدمی نے کچھ یوں تبصرہ کیا کہ مودی پہلے ایک بیٹی کے باپ بن جائیں ، اس کے بعد شادی کی عمر کا تعین کریں۔ شریعت کے اعتبار سے عمر نہیں بلکہ بلوغیت کو شادی کا معیار بنایا گیا ہے ۔ کئی جہد کاروں نے واضح کردیا کہ لڑکی کی شادی میں تاخیر سے کئی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں اور لڑکیوں کے غلط راہ پر چلنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ لڑکیوں کو گمراہی سے بچانے کیلئے ہر مذہب کا متفقہ فیصلہ ہے کہ لڑکی کے بالغ ہوتے ہی اس کے لئے جوڑے کی تلاش شروع کردی جائے۔ شریعت میں مداخلت کے معاملہ میں نریندر مودی حکومت بے خوف ہوچکی ہے۔ اگر طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پر مقابلہ کیا جاتا تو آج دوسرا وار کرنے کی ہمت نہ ہوتی ۔ قوم اور قیادت دونوں پر بے حسی طاری ہے جبکہ حکومت سے اپنے مطالبات بنوانے کیلئے کسانوں کا احتجاج تازہ ترین مثال موجود ہے۔ مسلمانوں کی روایتی قیادت کی کمزوری کا نتیجہ ہے کہ پے در پے شریعت پر حملے ہورہے ہیں۔ افسوس اس بات پر ہے کہ شریعت کی حفاظت کے معاملہ میں علماء اور مشائخ بھی بے حسی کا شکار ہیں۔ مسلم جماعتیں و تنظیمیں رسمی اجلاسوں اور بیانات تک محدود ہوچکے ہیں۔ سوشیل میڈیا پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری کی تکمیل سمجھا جارہا ہے ۔ مسلم سماج میں علم و حکمت رکھنے والے افراد کی خاموشی نے عام مسلمانوں کو شریعت کے بارے میں غیر سنجیدہ بنادیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ شریعت کے تحفظ کے لئے جدوجہد کا راستہ اختیار کرنے کی حکمت عملی طئے کی جائے ورنہ مودی حکومت آگے بہت کچھ کرسکتی ہے۔ڈاکٹر راحت اندوری نے کیا خوب کہا ہے ؎
شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کوئی کہہ دے اوقات میں رہے