آیا صوفیہ کی میناروں سے گونج رہی ہیں اذانیں

   

ابو معوذ
قسطنطنیہ جس کا قدیم نام ایکرو پولیس تھا ایک زمانہ میں رومی سلطنت کا دارالحکومت رہا۔ رومی سلطنت کے حکمراں جب کسی علاقہ کو فتح کرتے تو وہاں زبردست تباہی مچاتے۔ خواتین کی عصمت ریزی کی جاتی، مردوں کو انتہائی کرب ناک حالت میں موت کی نیند سلادیا جاتا یا پھر انہیں غلام بنا لیا جاتا۔ غرض یہ حکمراں ایک فتح کی حیثیت سے وہ سب کچھ کر گذرتے جسے ہم غیر انسانی سلوک کہتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ وہ اپنے مخالفین کی نعشوں کو اپنے محلات، گھروں اور خیموں کے باہر کئی کئی دن تک لٹکائے رکھتے اور دیکھنے والے ان مناظر کو دیکھ کر نہ صرف حیران رہ جاتے بلکہ ان میں خوف پیدا ہوجاتا اور و دہشت کی لہر دوڑ جاتی۔ بہرحال بازنطنی حکمرانوں کے مظالم تاریخ میں درج ہیں ساتھ ہی سلطنت عثمانیہ کے حکمراں محمد فاتح دوم کا نام آج بھی باقی ہے۔ یہ وہی محمد فاتح دوم ہیں جنہوں نے بازنطینی سلطنت اور اس کے مظالم کا خاتمہ کردیا اور اسے تاریخ کی ایک عبرت ناک یادگار بنا دیا۔ ایک ایسا دور بھی گذرا جب بازنطینی سلطنت قسطنطنیہ تک سمٹ کر رہ گئی تھی۔ اس وقت قسطنطنیہ مسیحی دنیا کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ تاہم سلطان محمد فاتح دوم نے اس مضبوط شہر کی درودیوار کو نہ صرف زمین دوز کردیا بلکہ بازنطینی سلطنت کے غرور و تکبر کا بھی خاتمہ کردیا۔ واضح رہے کہ 22 اپریل 1453 کو سلطان محمد فاتح دوم کی قیادت میں ترک فوج نے قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا اور تقریباً دو ماہ تک شہر کو اپنے جدید توپ خانوں کے ذریعہ بمباری کا نشانہ بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ 29 مئی کو 1453 کو قسطنطنیہ کی مضبوط دیواریں زمین دوز ہوگئیں۔ تاہم جب سلطان محمد فاتح دوم نے شہر کو دیکھا تو انہیں بڑا افسوس ہوا اور اس بہادر بادشاہ کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے کہ اس قدر خوبصورت شہر کو کیسے برباد کردیا گیا لیکن محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو دوبارہ بسانے اور اس کی عظمت رفتا بحال کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ انہوں نے دوسرے شہروں سے ماہرین، تاجرین، علماء ، محققین، سائنسدانوں کو طلب کیا اور عوام کے لئے کئی مراعات کا اعلان کیا۔ اس طرح قسطنطنیہ استنبول میں تبدیل ہوکر سلطنت عثمانیہ کا دارالحکومت بن گیا۔

قسطنطنیہ میں بازنطینی حکمرانوں نے کچھ غیر معمولی عمارتیں تعمیر کروائیں تھیں جن میں آیا صوفیہ جیسی فن تعمیر کی شاہکار مسجد بھی شامل ہے۔ یہ مسجد تقریباً 900 سال تک ایک گرجا گھر کی حیثیت سے کام کرتی رہی۔ پہلے یہ بازنطینی حکمرانوں کا تعمیر کردہ چرچ آف دی ہولی وزڈم آف کرائس بازنتین تھا اور پھر سلطنت عثمانیہ کے عروج اور بازنطینی سلطنت کے زوال کے بعد 500 برسوں تک وہ مسجد کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔ اگر دیکھا جائے تو 1453 میں قسطنطنیہ کے فتح کے ساتھ ہی یوروپ میں سلطنت عثمانیہ کا خوف چھا گیا، اس کے خلاف بے شمار سازشیں کی گئیں، یہاں تک کہ خلافت عثمانیہ کا خاتمہ بھی کردیا گیا۔ ان سازشوں میں جہاں اسلام دشمن طاقتوں کا حصہ رہا وہیں مسلمانوں کی صفوں میں شامل عناصر نے بھی اسلام دشمن طاقتوں کی سازش کا شکار ہوکر قوم پرستی کا نعرہ لگاتے ہوئے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کردیا اس طرح خلافت کا خاتمہ ہوگیا۔ 1934 میں مصطفی کمال اتاترک نے خود کو سیکولر ثابت کرنے کی خاطر سارے ترکی کو ایک سیکولر اور لادینی ملک میں تبدیل کردیا اور ساتھ ہی مسجد آیاصوفیہ کو اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے ایک میوزیم میں تبدیل کردیا حالانکہ سلطان محمد فاتح دوم نے جب قسطنطنیہ فتح کیا تھا اس وقت انہوں نے اس تاریخی چرچ یا گرجا گھر کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا بلکہ ایک ذر کثیر کے عوض گرجا گھر کو خرید کر اسے مسجد میں تبدیل کردیا تھا۔

جہاں تک قسطنطنیہ کے علاقہ کا سوال ہے اس خطہ کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ تقریباً 2500 برسوں سے یہ مغرب و مشرق کا مرکز ملاپ رہا اور جہاں تک آیا صوفیہ کا سوال ہے مختلف جنگوں، زلزلوں، فسادات کی تباہی و بربادی اور آفات سماوی کا اس نے مشاہدہ کیا۔ آپ کو بتادیں کہ رومن بادشاہ کونسٹنٹائن نے اس کا پہلا نام ایکرو پولیس بدل کر کونٹسٹینو پل یا قسطنطنیہ رکھ کر اسے سلطنت روم کا دارالحکومت بنا دیا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 360 میں کونسٹنٹائن کے بیٹے کونسٹنٹائن دوم نے آیا صوفیہ کی کشادگی عمل میں لائی۔ تاہم 404 میں وہاں فسادات بھڑک اٹھے اور پھر اسے جلا دیا گیا۔ 405 میں ایک بار پھر دوبارہ تعمیر عمل میں آئی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 532 میں بھی فسادات کے دوران آیا صوفیہ کو نذر آتش کردیا گیا تھا لیکن اس وقت کے بادشاہ جسٹین نے اسے دوبارہ تعمیر کروایا۔ تاریخ میں درج ہے کہ اس بادشاہ نے آیا صوفیہ جیسی تعمیری شاہکار کی بحالی کے لئے دنیا کے مختلف ممالک سے ماہرین کو طلب کیا اور تعمیری اشیاء بھی منگوائی۔ بہرحال اس جمعہ فرزندان توحید نے ہزاروں کی تعداد میں آیا صوفیہ میں نماز جمعہ ادا کی اور اس کی چار بلند و بالا میناروں سے گونجنے والی اذانوں نے دشمنان اسلام کو پریشان کردیا۔ کچھ دن قبل ہی صدر ترکی رجب طیب اردغان نے ایک سرکاری فرمان جاری کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ آیا صوفیہ میوزیم مسجد میں تبدیل کردیا جائے گا اور وہاں سے اذانیں گونجیں گی۔

ان کے اعلان پر اقوام متحدہ، اس کے ادارہ یونیسکو، روس کے سرفہرست پادریوں، مسیحی دنیا کے روحانی رہنما پاپائے روم، امریکہ، برطانیہ اور دوسرے ممالک کی حکومتوں نے سخت تشویش ظاہر کی۔ تاہم آہنی عزم و ارادوں کے مالک رجب طیب اردغان نے کسی کی نہ سنی اور دوسری طرف عدالت نے بھی سبز جھنڈی دکھادی۔ اس طرح 900 سال ایک گرجا گھر، 500 سال ایک مسجد اور 86 سال ایک میوزیم رہے آیا صوفیہ میں فرزندان توحید نے نمازوں کا آغاز کردیا۔ نماز جمعہ کے موقع پر رجب طیب اردغان اپنی ساری کابینہ اور ارکان خاندان کے ساتھ موجود تھے۔ سارے استنبول میں ایک جشن کا منظر دکھائی دے رہا تھا۔ رجب طیب اردغان کی حکومت نے اس اقدام کے ذریعہ اُن طاقتوں کو ایک واضح پیام دیا ہے جو ارض مقدس فلسطین پر قابض صیہونیوں کی بھرپور تائید و حمایت کرتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عالمی طاقتیں رجب طیب اردغان اور ترکی کو کس طرح سزا دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ایک بات ضرور ہے کہ جو لوگ اللہ کے گھروں کو بساتے ہیں اللہ انہیں اور ان کے گھروں کو آباد رکھتا ہے۔