اب کہیں گے بےوقوف لوگ کہ کس چیز نے پھیر دیا

   

اب کہیں گے بےوقوف لوگ کہ کس چیز نے پھیر دیا ان (مسلمانوں) کو اپنے قبلہ سے جس پر وہ اب تک تھے آپ فرمائیے اللہ ہی کا ہے مشرق بھی اور مغرب بھی ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے سیدھے راستہ کی طرف۔ ( سورۃ البقرہ ۔ ۱۴۲) 
حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف فرما ہوئے تو بیت المقدس کی طرف جو اہل کتاب کا قبلہ تھا رخ کر کے نماز ادا فرماتے رہے۔ سولہ سترہ ماہ اسی پر عمل رہا۔ لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی دلی آرزو یہی تھی کہ کعبہ جسے حضرت خلیل علیہ السلام نے تعمیر کیا امت مسلمہ کا قبلہ بنایا جائے۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آرزو کو پورا کرنے سے پہلے معترضین کے اعتراضات کا ذکر فرماتے ہیں تاکہ جب وہ اعتراضات کی بوچھاڑ کریں تو مسلمان کسی تذبذب کا شکار نہ ہو جائیں بلکہ تمام قیل وقال سے بےنیاز ہو کر نہایت اطمینان سے اپنے مالک کے فرمان کی تعمیل کریں۔ پہلے بتا دیا کہ قبلہ کی تبدیلی پر اعتراض صرف سطحی قسم کے لوگ ہی کریں گے جو اپنی کم عقلی کی وجہ سے یہ خیال کئے بیٹھے ہیں کہ بیت المقدس کی سمت میں کوئی ذاتی خصوصیت ہے جس کی وجہ سے اسے قبلہ بنایا گیا تھا اور وہ خصوصیت کسی اور سمت میں نہیں اس لئے بیت المقدس کے بغیر کوئی اور قبلہ بن ہی نہیں سکتا حالانکہ سمت ہونے میں تمام سمتیں یکساں ہیں۔ آج تک اگر یہ سمت قبلہ بنی رہی تو اس کی صرف یہی ایک وجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم سے اسے قبلہ مقرر فرما دیا۔ کسی کو اعتراض کا کیا حق۔ جو لوگ اتنی آسان سی بات بھی نہیں سمجھ سکتے وہ نادان اور بےسمجھ نہیں تو اور کیا ہیں۔