احتجاجیوں کے خلاف پولیس کی کاروائی‘ سپریم کورٹ نے کہاکہ‘ ہائی کورٹ انکوائری کرسکتا ہے

,

   

مذکور ہ طلبہ جو حکومت کے شہریت ترمیمی ایکٹ2019کے خلاف احتجاج کررہے ہیں‘ جس میں ان پناہ گزین کو شہریت فراہم کی جارہی ہے‘ اور یہ شہریت پاکستان‘ بنگلہ دیش اور افغانستان کے چھ اقلیتی طبقات کو فراہم کی جائے گی۔

نئی دہلی۔منگل کے روز سپریم کورٹ نے شہریت ایکٹ احتجاج پر دائر کردہ درخواستوں پر قابل احترام ہائی کورٹس کو ہدایت دی ہے اور کہاکہ ایچ سی تحقیقاتی پینل تشکیل دے سکتا ہے۔

وکیل اندرا جئے سنگھ جو وکلاء کے گروپس کے ساتھ تھیں سے چیف جسٹس آف انڈیاشرد اروندر بابی کو بتایا کہ ”ہمیں مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

یہ نظم ونسق کامسئلہ ہے‘ بسیں کس طرح جلائیں گئیں؟ دائرہ کار والی عدالت سے کیوں رجوع نہیں ہوئے“۔مذکورہ بنچ نے مزیدکہاکہ”ہم سنوائی کرنے والی عدالت نہیں ہے۔

ملک میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا دائرے کارہم خود کو نہیں مان سکتے۔ حالات الگ ہوسکتے ہیں‘ سچائی اور حالات الگ ہوسکتے ہیں“۔

وکیل اندرا جئے سنگھ نے اے این ائی کے مطابق زوردیا کہ ”یہ ساری ریاست کا معاملہ ہے اور پر حقائق سے آگاہی کے لئے ایک ایس ائی ٹی کی ضرورت ہے۔

کس طرح عدالت اس سے اپنے ہاتھ پیچھے ہٹاسکتی ہے؟۔مذکورہ عدالت میں تلنگانہ انکاونٹر معاملہ کی سنوائی ہوسکتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسی طرح کے احکامات دئے جائیں“۔

جامعہ یونیورسٹی کے طلبہ کی طرف سے وہ عدالت میں پیش ہوئی تھیں اور وہ چاہتی ہیں کہ پولیس نے جن لوگوں کے خلاف ایف ائی آردرج کی ہے اس پر تحفظ فراہم کیاجائے۔

اپنی بحث میں انہوں نے کہاکہ ”قانون یہ کہتا ہے کہ یونیورسٹیوں میں بغیر وائس چانسلر کی اجازت کے پولیس داخل نہیں ہوسکتی ہے۔

ایک فرد کی آنکھ چلی گئی‘ کچھ طلبہ کے پیر ٹوٹ گئے ہیں“۔ سالسیٹر جنرل توشار مہتا جو پولیس کی جانب سے نمائندگی کررہے تھے نے جئے سنگھ کے الزامات کاجواب دیا اور کہاکہ ”ایک بھی طالب علم کی آنکھ نہیں گئی ہے“۔

انہوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ ایک بھی طالب علم کو نہ تو گرفتار کیاگیا ہے اور نہ ہی جیل میں رکھا گیاہے۔

مذکورہ بنچ جس میں جسٹس بی آر گاوائی اور سوریہ کانت بھی شامل تھے نے منگل کے روز معاملے کی سنوائی کے لئے اس بات پر رضامندی ظاہر کی ہے کہ نہ تو کوئی مزیدتشدد ہوگا اور نہ ہی عوامی املاک کے ساتھ توڑ پھوڑ کی جائے گی۔

سینئر وکلا اندرا جئے سنگھ او رکولین گونزالویس نے عدالت میں معاملے کو اٹھانے پر زوردیا او ردعوی کیاکہ تشدد میں پولیس ملوث تھی۔

انہوں نے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج سے معاملے کے جانچ کا مطالبہ بھی کیا۔ جئے سنگھ نے عدالت کوبتانے کی کوشش کی کہ وہ طلبہ تھے جو پرامن طریقے سے احتجاج کررہے تھے اور وہ پولیس تھی جس نے بسوں کو جلایااور شرپسندی کی اور اس کا الزام طلبہ پر لگایاہے۔

مگر عدالت نے معاملے کو مسترد کردیا اور کہاکہ ”ہمیں اس بات کا کافی تجربہ ہے کہ فسادات کس طرح رونما ہوتے ہیں۔ ہم معاملے پر فیصلہ کریں گے مگر ایسے ماحول میں نہیں۔تمام واقعات پر توقف ہونا چاہئے“۔

مذکور ہ طلبہ جو حکومت کے شہریت ترمیمی ایکٹ2019کے خلاف احتجاج کررہے ہیں‘ جس میں ان پناہ گزین کو شہریت فراہم کی جارہی ہے‘ اور یہ شہریت پاکستان‘ بنگلہ دیش اور افغانستان کے چھ اقلیتی طبقات کو فراہم کی جائے گی۔