احتجاج 32ویں روز میں داخل۔ گاندھی کے ساتھ شاہین باغ میں روزہ بھی رکھا گیا۔

,

   

سپریم کورٹ کے ایک وکیل نظام پاشاہ نے کہاکہ ”مذہب اسلام میں روزہ کی کافی اہمیت ہے۔ دیگر مذاہب میں بھی اس کی سچائی اسی طرح ہے۔ یہ احتجاجی مظاہرہ عبادت پر مشتمل ہے تاکہ ہماری سکیولر ہندوستان کا احیاء عمل میں لایاجاسکے“۔

پاشاہ منصوبہ بنارہے ہیں کہ ایک اور ”اجتماعی“ روزہ 18جنوری کے روز بھی کیاجائے تاکہ مہاتما گاندھی کے چھ روز ہ بھوک ہڑتال کو یاد کیاجاسکے جس کے بعد دنوں میں گاندھی کو قتل کردیا گیاتھا۔

نئی دہلی۔ پچھلی جمعرات کی اولین ساعتوں میں صبح 4بجے کو دہلی کی سب سے سرد ساعتوں میں سے ایک تھا عارفہ جاگیں۔ان کی فیملی کے دیگر لوگ جس میں شوہر‘ دو بیٹے اور بیٹی ابھی محوخواب تھے وہ جاگیں تاکہ ایک گلاس دودھ اور کچھ بسکٹ کھالیں۔

یہ ان کی سحری تھی تاکہ دن میں وہ روزہ رکھ سکے۔نماز فجر کے بعد وہ کچھ گھنٹوں کے لئے دوبارہ محوخواب ہوگئیں۔ان دنوں گھر کے کاموں کے ساتھ دیگر امور بھی ان کی روزمرہ کے کام میں شامل رہے۔

کیونکہ جنوبی دہلی کے شاہین باغ میں شہریت ترمیمی ایکٹ او رامکانی این آرسی کے خلاف دوسرے ماہ میں داخل ہونا والا احتجاج شامل ہے وہ ان سینکڑوں خواتین میں شامل تھیں جو شاہین باغ کے احتجاج کی حمایت کے لئے وہاں پر جمع ہورہی تھے۔

مذکورہ روزہ ”اجتماعی“ طور پر رکھا جارہا تھا۔ عارفہ اسلام کے خصوصی ایام میں اس کو انجام دیتی رہیں تاکہ مذکورہ ”کالے قانون“ کے خلاف اپنا احتجاج درج کراسکے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قریب میں بھی ایک اور ”اجتماعی“ کا بھی اہتمام کیاگیاتھا‘ جہاں پر بھی احتجاج حصہ لینے والے مظاہرین نے روزہ رکھا تھا‘ ان کا کہنا ہے ان کی آواز سنانے کے لئے روزہ رکھنے کی ان کا پاس دوسری وجہہ بھی ہے۔

سپریم کورٹ کے وکیل ناظم پاشاہ نے کہاکہ ”جنوری وہ مہینے ہے جب 1948میں گاندھی (قتل سے قبل کے ایام میں)نے مسلمانوں کی سکیورٹی (تقسیم ہند کے پیش نظر) کے لئے مرن برت رکھاتھا“۔

انہوں مزیدکہاکہ ”مذہب اسلام میں روزہ کی کافی اہمیت ہے۔ دیگر مذاہب میں بھی اس کی سچائی اسی طرح ہے۔ یہ احتجاجی مظاہرہ عبادت پر مشتمل ہے تاکہ ہماری سکیولر ہندوستان کا احیاء عمل میں لایاجاسکے“۔

پاشاہ منصوبہ بنارہے ہیں کہ ایک اور ”اجتماعی“ روزہ 18جنوری کے روز بھی کیاجائے تاکہ مہاتما گاندھی کے چھ روز ہ بھوک ہڑتال کو یاد کیاجاسکے جس کے بعد دنوں میں گاندھی کو قتل کردیا گیاتھا۔

جامعہ کیمپس کے باہر ایک بیانر لگاتھا جس پر لکھا تھاکہ”احتجاج 32ویں روز میں داخل‘ شاہین باغ کا احتجاج روزگاندھی کے ساتھ“۔

پاشاہ نے مزیدکہاکہ ”اجتماعی“ روز کی 10جنوری کے روز جیسے ہی بات ہوئی سوشیل میڈیا پر یہ بہت تیزی کے ساتھ وائیرل بھی ہوئی۔شاہین باغ کی ایک والینٹر سائمہ خان نے کہاکہ جس روز بھی کہاجارہا ہے کم سے کم 100سو نئی عورتیں روزہ رکھ کر احتجاج میں شامل ہورہی ہیں۔

عارفہ جنھوں نے اب تک 10روزے رکھے ہیں احتجاج میں 2بجے شامل ہوتی ہیں۔ بات چیت سے گریز اور خاموشی کے ساتھ عبادت کرتی ہیں‘ انہوں نے کہاکہ ان کامذہب ”سکیولر ہندوستان کے لئے جدوجہد‘‘ انہیں حوصلہ دیتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ”جب پریشانیاں آتی ہیں تب ہم روزے رکھتے ہیں۔ اس بار قوم کے لئے‘ ملک کے لئے‘ ہم روزے رکھ رہے ہیں۔ ہم سب ہندو مسلم برابری سے رہیں‘ ساتھ رہیں‘ یہی دعا کرتے ہیں“


مورخ رانا صفوی نے کہاکہ روزہ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ایک منفرد ہے۔ انہوں نے کہاکہ ”اپنی نفس پر قابو پانے کے متعلق روزہ ہے‘ ایک احتجاج جس میں آپ کو برہمی کی اجازت ہر گز نہیں ہوتی۔یہ قابوگاندھی اور ان کی ستیہ گرہ کے مترادف ہے“۔

عارفہ کی بیٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں انڈر گریجویٹ طالب علم ہیں۔ جس روز کیمپس میں پولیس داخل ہوئی تھی وہ اس وقت کالج میں موجود نہیں تھی‘ مگر اس واقعہ نے اس کو ہیبت میں ڈال دیاہے۔

انہوں نے کہاکہ ”اے ایم یو میں انہوں نے کہاکہ اس کامشاہدہ کریں۔ اسی وجہہ سے ہم باہر نکلنے کے مجبور ہوگئے ہیں۔

اب تک پانچ روز رکھنے والی 55سالہ شبنم جہاں نے کہاکہ ”میں مستقبل کی نسلو ں کے لئے روزہ رکھ رہی ہوں تاکہ مذکورہ حکومت این آرسی اور سی اے اے واپس لے۔ اللہ ہی مراد پوری کرے گا“


جامعہ اسٹوڈنٹ کی جانب سے گیٹ نمبر 7کے باہر زنجیری بھوک ہڑتال 10دن میں داخل ہوگئی ہے۔

شام کے وقت میں روزداروں کے لئے سموسہ کی تقسیم عمل میں لائی گئی۔ ہرروز آنے والوں میں ”کم سے کم دو تین گھنٹوں“ کے لئے انجم اور آصیفہ بھی شامل ہیں جو بٹالہ ہاوز کے قریب میں رہتی ہیں‘ اپنے گھر کے کام تکمیل کرنے بعد بچوں کو پڑوس میں چھوڑ کر وہ یہاں پر آتی ہیں۔

مذکورہ دونوں خواتین نے کہاکہ ”آج ہم نے روزہ رکھا ہے‘ اپنی قوم کے لئے‘ اس کی بہتری کے لئے“۔ جامعیہ کوارڈنیشن کمیٹی کے طلبہ نے کہاکہ ”جس روز وہ چاہتے ہیں‘ لوگ اپنی مرضی سے روزہ رکھ رہے ہیں‘‘۔

اس احتجاج کے دوران گاندھی ایک سب سے بڑی شناخت کے طور پر ابھرے ہیں‘ پوسٹرس اور نعروں کے ساتھ جو ان کے رودار ہندوستان کے خواب پر مشتمل ہیں۔

عارضی لائبریری کے ایک حصہ میں جامعہ لائبریری کے اندر پولیس تشددکی یاد پر مشتمل کچھ تصویریں بھی لگائی گئی ہیں۔ ایک منتظم ساحل نے کہاکہ ”ڈسمبر25کے روز ہم نے ہندو مسلم اتحاد اور گاندھی کے ہند سوراج کے ستیہ گرہ پر ایک چیاپٹر کا مطالعہ کیا۔

اس کے علاوہ افروز عالم ساحل کی لکھے ہوئے جامعہ او رگاندھی کا بھی ہم نے مطالعہ کیا ہے“۔


رام چندر گوہا جنھوں نے گاندھی پر تاریخ لکھی ہے کہ مخالف سی اے اے احتجاج جو بنگلور میں ہوا وہاں پر موجود تھے۔

انہو ں نے کہاکہ ”ہندو مسلم اتحاداور اقلیتوں کے حقوق کی جدوجہد میں گاندھی کے نام کا استعمال ناقابل فراموش ہے۔

ملک بھر میں تمام عقائد کے لوگوں کو شامل کرنے کے لئے گاندھی سے منظوری ملنے کے یہ مترادف ہے“۔

جامعہ کے پاس پاشاہ کی تیاری ہے وہ بڑے روزہ پروگرام کرائی گاجس کی شروعات ممکن ہے کہ جنوری18سے یوگی تاکہ گاندھی کے چھ روزہ مرن برت کو یاد کیاجاسکے‘ جس کے بعد گاندھی کو گوڈ سے نے گولی مارکر قتل کردیاتھا