استاد اعلٰحضرت دکن حضرت امام محمد انواراللہ فاروقی ؒ

   

ابوزہیر سید زبیر ھاشمی نظامی
شیخ الاسلام فضیلت جنگ خان بہادرحضرت امام حافظ محمد انوار اللہ فاروقی علیہ الرحمہ بانی ٔ جامعہ نظامیہ کی ولادت ۴؍ربیع الآخر ۱۲۶۴؁ھ کو بمقام ناندیڑ (مہاراشٹرا) ہوئی۔ اور آپ کا وصال بعد مغرب غرّہ جمادی الآخر ۱۳۳۶؁ھ کو ہوا ہے۔ جامعہ نظامیہ کا سنگ بنیاد پیر کے دن ۱۹؍ذوالحجۃ الحرام ۱۲۹۲ ؁ھ کو رکھا گیا۔ حضرت شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہ ؒکی شخصیت، ہم سب کیلئے مشعل راہ ہے۔ آپ ایسے ایسے کارنامے انجام دیئے، جنکو ہم سب کبھی بھلا نہیں سکتے۔
حضرت شیخ الاسلام کی زندگی سادگی سے بسر ہوتی تھی۔ اور حتی الامکان سنت پر عمل پیرا رہے۔ خانہ داری میں پُر تکلف سامان نہیں تھا، جو کچھ بھی تھا، سب ضروری، جس سے سفر حضر میں کام پڑتا، تخت پر سوتے۔ زندگی ٔجاوید کیلئے آپ اپنا سب کچھ خرچ کردیا کرتے۔ آپ نے وصیت فرمائی تھی کہ ایک ثلُث راہِ خدا میں خرچ کیا جائے۔ منشا یہ تھا کہ جس قدر بھی ہوسکے رضائے الٰہی ڈھونڈیں۔ آپ معاملت میں نہایت احتیاط برتتے تھے۔ تنخواہ کے علاوہ جو رقمیں سرکار سے منظور تھیں، وہ بھی بہ نظر احتیاط نہیں لیتے تھے۔ صادر و دورہ کے اخرجات خود برداشت فرماتے ۔ سرکاری کمیٹیاں جو آپ کے گھر پر ہوتی تھیں، اس کے جملہ مصارف (ضیافت و غیرہ میں) آپ ادا فرماتے۔ اپنی ذات سے خرچ کرنے کی کیا ضرورت کے جواب میں فرماتے کہ ہم کو سرکار اتنی تنخواہ دیتی ہے کہ ہم یہ مصارف برداشت کرسکتے ہیں تو ایسی حالت میں خزانہ شاہی کو زیر بار کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ (سبحان اللہ)
حضرت شیخ الاسلام اوقات دفتر میں کوئی خانگی کام نہیں کرتے تھے۔ حتی کہ اگر کوئی صاحب خانگی ملاقات کیلئے آتے تو ناخوش ہوتے اور فرماتے کہ خانگی ضرورت کیلئے اوقات دفتر کے علاوہ کسی اور وقت آئیں۔ دفتر کا وقت صرف سرکاری کام کیلئے ہے۔ سرکاری اور خانگی ملازمین سب کے ساتھ آپ کا برتاؤ نہایت شریفانہ رہتا تھا۔ نہ کبھی کسی کو ایسی بات کہتے نہ کسی سے ایسا سلوک کرتے، جس سے وہ ناخوش ہو۔ آپ کے اس حسن سلوک کیوجہ سے خانگی ملازم کی یہ حالت ہوگئی تھی کہ جو ایک دفعہ ملازم ہوجاتا وہ پھر تادمِ آخر آپ کی خدمت سے دور نہ ہوتا تھا۔حضرت شیخ الاسلام کی طبیعت میں حلم اس قدر تھا کہ دوسرے اشخاص تو ایک طرف اگر ملازمین بھی آپ پر بگڑتے اور ترش روی سے پیش آتے توآپ اس کا جواب نہایت سنجیدگی سے دیتے اور نرمی سے سمجھادیتے تھے۔ آپ کے اخلاق اس قدر وسیع تھے کہ اپنے سے کم رتبہ والوں کے ساتھ بھی ویسا ہی برتاؤ فرماتے جیسا کہ ہمسروں سے۔ آپ خوشی و غمی کی مجلسوں میں شریک ہوتے۔ بیماروں کی عیادت کرتے۔ جنازوں میں شرکت فرماتے۔ چھوٹے بڑوں کو سلام کرنے میں حتی الامکان پیش قدمی فرماتے۔ آپ کا طرز زندگی نہایت سادہ تھا اور ذاتی اخرجات بہت کم، پھر اتنی آمدنی آخر جاتی کہاں؟ آپ کی عادت تھی کہ کبھی آمد و خرچ کا حساب کتاب ملاحظہ نہیں فرماتے، بلکہ جملہ آمدنی ایک منشی صاحب کے حوالہ تھی۔ جب مہینہ قریب الختم ہوتا تو آپ انکو بلاکر پوچھتے کچھ رقم باقی ہے ؟ اگر جواب نفی میں ملتا تو خدا کا شکر ادا فرماتے، ورنہ باقی رقم کو کسی دینی کام میں خرچ کرنے کیلئے فرماتے تھے۔حضرت شیخ الاسلام کی طبیعت میں صلہ رحمی کا مادہ زیادہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ملنے والوں کی حاجت روائی کرتے۔ سامنے کوئی مانگنے والا آتا تو عطا فرماتے۔ بیوہ یتیموں کی امداد کرتے۔ مسجد یا درگاہوں کے مانگنے والے فقیروں کا سوال رد نہ کرتے۔ جمعہ و دیگر ایام متبرکہ میں خاص طور پر خیرات فرماتے۔ آپ نے جامعہ نظامیہ پر اس قدر خرچ کیا کہ جس کا شمار نہیں ہوسکتا۔ (الحمدللہ)
حضرت شیخ الاسلام کی مہمان نوازی کا یہ عالم تھا کہ ہمیشہ آپ کے دسترخوان پر عرب و ہندوستان اور مختلف مقامات کے دس بیس مہمان ضرور رہتے تھے آپ مہمانوں کی بڑی خاطر مدارت کرتے۔ گو آپ کی غذا سادہ تھی اور مہمانوں کیلئے پر تکلف غذائیں پکتی تھی، جن میں سے آپ کچھ نہیں کھاتے تھے، مگر محض اسلئے کہ مہمان کی خاطر شکنی نہ ہو۔ دسترخوان پر بیٹھ جاتے۔ خاطر تواضع میں کوئی کمی نہ کرتے۔ رمضان المبارک میں آپ کا دسترخوان خاص طور پر وسیع ہوتا تھا۔ شروع میں جب آپ کی تنخواہ چار سو روپئے تھی، تو یہ لازم تھا کہ دوسوآدمی سحر و افطار آپ کے ساتھ کریں، مگر جوں جوں آمدنی بڑھتی گئی، اس تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ آخر میں سات سو تک نوبت پہنچ گئی تھی۔ سحر و افطار میں دسترخوان پر نہایت پر تکلف غذائیں و لوازمات ہوتے تھے۔ آپ کی زندگی ملت بیضاء کے بالکل مطابق تھی۔ کھانے پینے، سونے بیٹھنے، چلنے پھرنے غرض ہر بات میں اس کا خیال رکھتے کہ کوئی بات شریعت کے خلاف نہ ہونے پائے۔ چھوٹی چھوٹی باتیں بھی خلاف شرع ظاہر نہ ہوتیں۔ آپ کی پابندی ٔ نماز کا یہ عالم تھا کہ آپ کے شاگرد و مفتی اول حضرت مفتی محمد رکن الدین علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میں ۲۸؍سال آپ کی خدمت میں رہا۔ کبھی کوئی نماز قضاء ہوتے نہیں دیکھا۔ مرض الموت میں جب آپ کا اٹھنا بیٹھنا مشکل ہوگیا تھا، تیمم کرکے لیٹے لیٹے ہی نماز ادا فرماتے۔ حتی کہ دورۂ غش میں جو نمازیں قضاء ہوجاتیں وہ بھی ادافرماتے۔کبھی آپ صاحب نصاب ہوتے ہی نہ تھے کہ آپ پر زکوۃ واجب ہوتی۔ ابتدائی عمر میں عسرت سے گزری۔ اس میں گزر بسر ہی مشکل تھی۔ بعد میں جو کچھ آتا اُس پر ہر ایک سال تو کیا ایک مہینہ بمشکل گزرتا تھا۔
حضرت شیخ الاسلام نے جملہ تین حج کئے۔ اور کئی سال تک مدینہ طیبہ میں قیام فرمائے۔ جو کوئی شیخ الاسلام کی صحبت میں رہا، ضرور فیض پایا۔ دوست احباب تو خیر ملازمین تک پابند صوم و صلوۃ اور شریعت پر عامل تھے۔ اعلٰحضرت نواب میر عثمان علی خاں بہادر آصف جاہ سابع تقریبا اکیس(۲۱)سال زیر تعلیم رہے۔ ظاہر ہے کہ اعلٰحضرت کی زندگی قرون اولیٰ کے مسلمان سلاطین کا نمونہ ہے۔ یہ شیخ الاسلام کی صحبت کا اثر ہی ہے، جو اعلٰحضرت آصف جاہ سابع کے نام کی، تمام عالَم اسلام میں دھوم مچی ہوئی ہے۔حضرت شیخ الاسلام، اہل اسلام کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ ہمارے دین میں ادب کی نہایت ضرورت ہے، جب تک اہل اسلام میں کامل طور پر ادب رہا دن دونی رات چوگنی ترقی ہوتی رہی۔ مشکوۃ شریف میں عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، جس کا ماحصل یہ ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺنے کہ جب لوگوں میں اختلاف پڑجائے تو جن چیزوں کو تم جانتے ہو ان پر عمل کرو اور جن چیزوں کو نہیں جانتے انکو چھوڑدو۔ اور اپنی ذات کی فکر کرلو۔ عوام کو ان کی حالت پر چھوڑدو۔
مشکوۃ شریف میں ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ بنی اسرائیل کے بہتر (۷۲) فرقے ہوگئے تھے اور میری امت کے تہتر (۷۳) فرقے ہوجائیں گے۔ سب دوزخ میں جائیں گے۔ سوائے ایک فرقہ کے۔ صحابہ نے پوچھا وہ فرقہ کونسا ہے؟ فرمایا وہ لوگ جو میرے اورمیرے صحابہ کے طریقہ پر ہونگے۔
حضرت شیخ الاسلام تحریر فرماتے ہیں ہر چیز جانتی ہے کہ حضرت، رسول اللہ ہیں: صاف ظاہر ہے کہ عالم کی ہر ایک چیز سمجھتی ہے کہ آپ رسول اللہ ﷺ اور واجب التعظیم ہیں اورکنز العمال میں روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ لیس شئی من السماء والارض الا یعلم انی رسول اﷲ رواہ احمد والدارمی وایضا عن ابی ہریرۃ‘‘۔مواہب لدنیہ میں متعدد طرق سے یہ روایت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور بعض صحابہ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺجب قضائے حاجت سے فارغ ہوتے تو زمین فضلہ کو نگل جاتی۔ اور اس مقام میں خوشبو مہکتی رہتی تھی۔ زمین کو اس متبرک فضلہ کی قدر تھی۔مواہب لدنیہ میں روایت نقل کی گئی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو بحسب الہام انہوں نے کہا کہ الــٰہی تونے میری کنیت ابومحمد کیوں رکھی؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ائے آدم سر اٹھاکر دیکھو۔ جب دیکھا تو عرش میں محمد ﷺکا نور ہے۔ عرض کیا یارب یہ کس کا نور ہے۔ ارشاد ہواکہ یہ ایک نبی کا جو تمہاری اولاد میں ہوں گے۔ ان کا نام آسمان میں احمدہے اور زمین میں محمد۔ اگر وہ نہ ہوتے تو میں نہ تم کو پیدا کرتا نہ کسی آسمان کو اور نہ زمین کو۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک توفیق عطا فرمائے۔ آمین