استقبال ِ رمضان کریم

   

جس مبارک مہینہ کی آمد کا ہمیں بے چینی و بے قراری سے انتظار تھا، وہ مبارک مہینہ ہمارے گھر پر دستک دے رہا ہے۔ اس کی آمد کے ساتھ ہی ہر طرف خوشیوں کی لہر دوڑ جاتی ہے، مسرتوں کے پھریرے اُڑنے لگتے ہیں، شادمانی کے طبل بجائے جاتے ہیں اور ہر طرف فرحت و انبساط کی فضاء ہوتی ہے۔ رمضان المبارک کا چاند نظر آتے ہی ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے بغلگیر ہوکر رمضان کی مبارکباد پیش کرتا ہے۔ چھوٹے اپنے بڑوں کو ادب و احترام سے سلام کرتے ہیں، ایک دوسرے سے فون پر مبارکبادی کے تبادلے ہوتے ہیں۔ یکایک فضاء میں عجیب سا سہانا پن پیدا ہو جاتا ہے۔ ہر ایک کی فکر بدل جاتی ہے، مسجدیں آباد ہو جاتی ہیں، سارے مسلمان اللہ تعالیٰ کے دربار سے وابستہ ہو جاتے ہیں، کلام الہی کی تلاوت میں مشغول ہوجاتے ہیں، ان کی زبانیں ذکر الہی اور تلاوت قرآن میں زمزمہ سنج ہوجاتی ہیں اور نماز باجماعت کا اہتمام ہوتا ہے۔ کیا چھوٹا، کیا بڑا، کیا نیک، کیا بد، کیا متقی، کیا فاسق، ہر ایک اللہ تعالیٰ کے دربار میں سربسجود نظر آتا ہے۔ ایک خاص نورانی کیفیت ہوتی ہے اور ہر ایک کے چہرے سے نور ظاہر ہوتا ہے۔ چھوٹے و کمسن بچوں میں روزہ جیسی گراں عبادت کا اشتیاق ہوتا ہے۔ سحر کے وقت کا لطف، افطار کے وقت کی حلاوت، تراویح کے اہتمام کی جلدی، دوران تراویح تسبیحات کا ورد ایک خاص کیفیت پیدا کرتا ہے۔صبح صادق سے غروب آفتاب تک مسلمان بھوکا و پیاسا رہتا ہے، تعلق زن و شوہر سے دور رہتا ہے۔ عین دوپہر اور سہ پہر کے وقت دھوپ اور پیاس کی شدت سے بیتاب ہوتا ہے۔ کسی مقام پر بندہ تنہا ہو، کوئی انسان موجود نہ ہو، کوئی آنکھ دیکھنے والی نہ ہو، مگر اس کے باوجود محبت الہی میں سرشار بندہ پانی کا ایک بوند نہیں پیتا۔ اسی لئے پروردگار فرماتا ہے کہ ’’بندۂ مؤمن روزہ میرے لئے رہتا ہے، میرے لئے بھوک و پیاس کی شدت برداشت کرتا ہے، اس لئے اس کے روزہ کا بدلہ میں عطا کروں گا‘‘۔ (حدیث)
جب پروردگار عالم روزہ دار کو روزہ کا بدلہ عطا فرمائے گا تو بندے کی عبادت کے بقدر ثواب و جزا نہیں دے گا، بلکہ پروردگار عالم اپنی شان اور فضل کے اعتبار سے بے حد و حساب اجر و ثواب عطا فرمائے گا۔ دن بھر کا بھوکا پیاسا بندہ جب بوقت غروب آفتاب افطار کے لئے بیٹھتا ہے تو ہمہ اقسام کے میوے سامنے ہوتے ہیں، ٹھنڈا پانی موجود ہے، لذیذ غذائیں اور عمدہ مشروبات رکھے ہوئے ہیں، مگر کیا مجال کہ ایک قطرہ پانی استعمال کرلے۔ بندہ غروب آفتاب کا منتظر رہتا ہے، پھر جونہی سائرن بجتا ہے اللہ کا نام لے کر افطار کرتا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’روزہ دار کو دو خوشیاں نصیب ہوتی ہیں، ایک خوشی بوقت افطار میسر ہوتی ہے اور ایک خوشی اس وقت ہوگی، جب وہ اپنے پروردگار سے ملاقات کرے گا‘‘۔ (حدیث شریف)
جب روزہ دار افطار کرتا ہے، چند گھونٹ پانی پیتا ہے، کچھ میوے کی قاشیں کھاتا ہے، جو اس کی بھوک میں اضافہ کردیتی ہیں، مگر اسی وقت مؤذن نماز مغرب کے لئے ’’حی علی الصلوۃ‘‘ اور ’’حی علی الفلاح‘‘ کی صدا بلند کرتا ہے۔ بندۂ مؤمن اس ندا کو سن کر خدا کے دربار میں سرنیاز خم کرنے کے لئے لذیذ غذاؤں کو خیرباد کہہ دیتا ہے اور اپنے رب کے حضور سربسجود ہو جاتا ہے اور پھر بعد نماز مغرب تناول کرتا ہے۔ روزہ کی حدت، کام کاج کی تھکن کی وجہ سے طبیعت سست اور آرام کی طرف مائل ہوتی ہے، مگر ابھی تھوڑا ہی وقفہ گزرتا ہے کہ پھر مؤذن اللہ کے دربار میں حاضر ہونے اور بندگی کے اظہار کی دعوت دیتا ہے۔ بندۂ مؤمن اپنی سستی و کاہلی اور آرام چھوڑکر اللہ کے دربار میں حاضر ہو جاتا ہے۔ نماز عشاء ادا کرتا ہے اور اسی کے ساتھ بیس رکعات نماز تراویح پڑھتا ہے۔ طویل قیام کرتا ہے، کلام الہی کی سماعت کرتا ہے، گویا دن بھر روزہ رہ کر دربارِ الہی میں جانے کی تیاری کرتا ہے اور تراویح میں قیام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے قرب خاص میں پہنچ کر خصوصی مناجات و سرگوشی سے فیضیاب ہوتا ہے۔ رات دیر گئے بستر پر آرام کے لئے جاتا ہے، ابھی نیند مکمل نہیں ہوتی کہ سحر کے لئے بیدار ہو جاتا ہے۔ سحر کی برکتوں بالخصوص رات کے آخری حصے کی نوازشات سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ بعد سحر نیند کا غلبہ ہوتا ہے، مگر اسی وقت مؤذن ’’الصلوۃ خیر من النوم‘‘ کی صدا بلند کرتا ہے کہ ’’نماز، نیند سے بہتر ہے‘‘۔ پھر بندہ اپنی میٹھی نیند قربان کرکے مسجد کا رخ کرتا ہے۔ اس طرح رمضان المبارک میں محبت الٰہی کے جلوے نظر آتے ہیں اور فضل الہی کی برسات جوش میں رہتی ہے۔
شعبان کی آخری تاریخ میں حضور نبی اکرم ﷺ نے استقبال رمضان پر ایک عظیم الشان خطبہ ارشاد فرمایا، جس میں آپ ﷺ نے رمضان المبارک کی اہمیت کو اُجاگر فرمایا کہ ’’رمضان ایک باعظمت مہینہ ہے، جس میں ایک رات ہزار مہینوں سے زیادہ افضل ہے۔ اس کے دن میں روزہ رکھنا فرض اور رات میں قیام مسنون ہے۔ اس میں ایک سنت ادا کرنا فرض کے برابر اور ایک فرض ادا کرنا ستر فرض ادا کرنے کے برابر ہے۔یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ اس ماہ مبارک میں جو کسی روزہ دار کو افطار کراتا ہے تو اس کی مغفرت ہوتی ہے اور اس کو دوزخ سے رہائی عطا کی جاتی ہے۔ روزہ دار کے اجر و ثواب میں کمی ہوئے بغیر افطار کرانے والے کو بھی روزہ کا اجر و ثواب ملتا ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا ’’یارسول اللہ! ہم میں سے ہر شخص روزہ دار کو افطار نہیں کراسکتا‘‘۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’جو شخص روزہ دار کو تھوڑے سے دودھ یا پانی، یا کھجور سے افطار کراتا ہے، اللہ تعالی اس کو بھی اجر و ثواب عطا فرماتا ہے اور جو کسی روزہ دار کو شکم سیر کردیتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن میرے حوض کوثر سے سیراب کرے گا، پھر وہ جنت میں داخل ہونے تک پیاس محسوس نہیں کرے گا‘‘۔ اس ماہ کا پہلا دہا رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا دوزخ سے رہائی کا ہے‘‘۔
(مستند کتب حدیث، بروایت حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ)
پس رمضان المبارک میں جہاں محبت الہی کے مناظر نظر آتے ہیں، اسی طرح رمضان المبارک کی برکت سے بندۂ مؤمن میں صبر کا مادہ، قوت برداشت، تحمل اور ضبط نفس کا ملکہ پیدا ہوتا ہے اور جس میں صبر کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، اس کو خدا کی خصوصی معیت نصیب ہوتی ہے اور وہ جنت جیسی اعلیٰ نعمت کا حقدار ہو جاتا ہے۔ لیکن آج مسلمان رمضان المبارک کا اہتمام تو کرتے ہیں، لیکن ان کے اندر صبر و تحمل، عفو و درگزر کی جو خوبی ہونی چاہئے، وہ نظر نہیں آرہی ہے، جس کی وجہ سے مسلم معاشرہ فتنہ و فساد، بے چینی اور اضطراب کا شکار ہے، روز بروز نفس پرستی اور خواہشات نفسانی میں گھرتا جا رہا ہے۔ آئیے ہم سب مل کر رمضان کی آمد سے قبل توبہ و استغفار کریں اور اس ماہ مبارک میں گناہوں سے بچنے، قوت برداشت اور تحمل کی اعلیٰ صفات حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ آپس میں نفرت اور دشمنی کو ختم کریں، انتقامی جذبات کا ازالہ کریں اور عفو و درگزر سے کام لیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’جو شخص صبر کرے اور معاف کردے تو یہ یقینا ہمت کے کاموں میں سے ہے‘‘ (سورۃ الشوریٰ۔۳۴) ’’سو معاف کرو اور درگزر سے کام لو‘‘ (سورۃ البقرہ۔۱۰۹) ’’اور تم معاف کرو تو تقویٰ سے زیادہ قریب ہے‘‘ (سورۃ البقرہ۔۲۳۷) ’’برائی کی سزا اسی کے مطابق برائی ہے، لیکن جو معاف کردے اور (اپنا اختلاف) نپٹالے درست کرلے تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے‘‘۔ (سورۃ الشوریٰ۔۴۰)