اسرائیل اورسعودی عرب کے درمیان کی کیمسٹری

,

   

امریکی یہودی آرگنائزیشن کا ایک نمائندہ وفد چاردنوں کے سعودی عرب دورے پر درالحکومت ریاض پہنچا۔جہاں پر اس کا استقبال”عالمی مسلم لیگ“ کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم علی عیسیٰ اور سعود ی افسران نے کیاہے۔

امریکی یہودی آرگنائزیشن کا نمائندہ وفد10فبروری کے روز سعودی عرب پہنچا اور13فبروری تک یہاں پر قیام کیا۔ اس دوران انہوں نے سعودی عرب کے شاہی خاندان کے ممبرس‘ سینئر سعودی عہدیداروں‘ مذہبی قائدین کے علاوہ سماجی شعبہ سے وابستہ افراد سے ملاقات کی۔

وفدکی نمائندگی تنظیم کے جنرل سکریٹری و سی ای او آنہان نے کیا۔ جو امریکی یہودی سماج کے اہم او ربااثر شخص ہیں۔ اس کے علاوہ وائٹ ہاوزمیں بھی ان کا بڑا اثر ہے۔

سعودی عرب کا دورہ کرنے والے نمائندہ وفد امریکہ کہ51بڑے یہودی تنظیموں کا ایک گروپ ہے۔ جس کا نام ”آرگنائزیشن آف پریسڈنسی آف میجر امریکی یہودی آرگنائزیشن“ ہے۔

اس کو ”کانفرنس آف پریسڈنسی“بھی کہاجاتا ہے۔ نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ یہودیوں کے گروپ کی نمائندگی کرتا ہے۔

اس کو 1950کے دہے میں بنایاگیاتھا۔ جس کا اہم مقصد ایک آواز ہوکر امریکہ کی بیرونی پالیسی کو اسرائیل و یہودیوں کے موقف کرنا ہے۔

اس سے قبل ایک معاہدے کے دوران امریکی یہودی تنظیم ”اینٹی ڈیفمیشن لیگ“ کے ایک وفد نے1993میں ریاض کا دورہ کیاتھا۔امریکہ میں رہنے والے تمام امریکی یہودیوں کو دوہری شہریت ہے وہ امریکہ کے ساتھ اسرائیل کے بھی شہری ہیں۔

’کانفرنس آف پریڈنسی‘ کے دورہ پچھلے دروازے سے تعلقات کوبڑھانے کی ایک کوشش ہے۔

یہی وجہہ ہے کہ اس وفدکی نمائندگی کرنے والے لوگوں نے سعودی عرب کے دورے کرنے کے بعد اسرائیل گئے وہاں انہوں نے 15فبروری کے روز ایک پریس میٹ بھی کی تھی۔

سعودی عرب او راسرائیل کے درمیان تعلقاب کی خبریں مسلسل آتے رہتے ہیں۔ بالخصوص امریکہ اور اسرائیل کے میڈیا میں یہ خبریں عام ہیں مگر سعودی میڈیااس پر خاموش رہتا ہے لیکن لندن نژد عرب سماچار کے ذرائع میں بھی کچھ خبریں چھن کر آہی جاتی ہیں۔

اس سے قبل اسرائیل کے ٹوئٹر ہینڈ ل پر سعودی عرب کے قومی دن پر مبارکباد دی گئی جس کاشکریہ کے ساتھ سعودی عرب نے بھی جواب دیاتھااور یہودی تہوارکے موقع پر اسرائیل کی عوام کو مبارکباد دی تھی۔

اسرائیل چاہتا ہے کہ عرب دیشوں سے اس کے سیاسی تعلقات میں اضافہ چاہتا ہے تاکہ مذکورہ معاملہ کے مارکٹ تک اس کی رسائی ہوسکے۔

میڈلسٹ کوارڈنیشن میں شامل چھ عرب ممالک کی سالانہ درآمد 462بلین ڈالر ہے۔ جبکہ اسرائیل کی جی ڈی پی کی سطح31بلین ڈالر ہے۔

اسرائیل ہر سال 58بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرتا ہے۔ خلیجی عرب ممالک میں والیو ایڈیٹ اشیاء کی بہت کھپت ہے‘ نیز تجارتی او رسفارتی تعلقات کی آڑ میں اسرائیل کی انٹیلی جنس سرگرمیاں بھی تیز ہوجاتی ہیں۔