اسرائیل کا چہرے کی شناخت کی ٹکنالوجی کا استعمال

   

نیویارک :’نیویارک ٹائمز‘ کے مطابق اسرائیل نے غزہ میں بڑے پیمانے پر چہروں کی شناخت کا پروگرام شروع کیا ہے۔اس پروگرام سے فلسطینیوں کا ڈیٹا بیس ان کے علم یا رضا مندی کے بغیر بنایا گیا ہے۔ایک اسرائیلی افسر کا کہنا تھا کہ بعض اوقات ٹیکنالوجی غلط طریقے سے شہریوں کو حماس کے مطلوب دہشت گردوں کے ساتھ جوڑ دیتی ہے۔امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں بڑے پیمانے پر چہروں کی شناخت کا پروگرام شروع کیا ہے جس سے فلسطینیوں کا ڈیٹا بیس ان کی معلومات یا رضا مندی کے بغیر بنایا گیا ہے۔اکتیس سالہ فلسطینی شاعر مصعب ابو طحہٰ ان سینکڑوں فلسطینیوں میں سے ایک ہیں جنہیں چہرے کی شناخت کے اس پروگرام کی مدد سے ایک ہجوم سے باہر نکالا گیا جو گزشتہ سال کے آخر سے غزہ میں اسرائیل کی جانب سے غیر اعلانیہ طور پر شروع کیا گیا ہے۔’نیو یارک ٹائمز‘ کی رپورٹ کے مطابق 19 نومبر کو ابو طحہٰ غزہ کی مرکزی شاہراہ پر اسرائیلی فوج کے ایک چیک پوائںٹ سے گزر رہے تھے کہ اچانک انہیں ہجوم سے باہر نکلنے کا کہا گیا۔ ان کی گود میں تین سال کا بچہ تھا جسے نیچے اتار کر وہ خود ایک فوجی جیپ کے سامنے بیٹھ گئے۔لگ بھگ آدھے گھنٹے بعد ابو طحہٰ کو ان کے نام سے پکارا گیا اور ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی جس کے بعد ان سے پوچھ گچھ کی گئی۔مصعب ابو طحہٰ کہتے ہیں کہ انہیں نہیں معلوم تھا کہ کیا ہو رہا ہے؟ ان لوگوں کو ان کا پورا قانونی نام اچانک کیسے معلوم ہو سکتا ہے؟ ان کے بقول عسکریت پسند گروپ حماس سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ غزہ چھوڑ کر مصر جا رہے تھے۔اسرائیل کی انٹیلی جینس کے تین اہلکاروں کے مطابق ابو طحہٰ ان کیمروں کی رینچ میں آگئے تھے جن میں چہرے کی شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی موجود ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے ان کے چہرے کو پہلے اسکین اور پھر شناخت کیا گیا۔وہ کہتے ہیں کہ آرٹیفیشل انٹیلی جینس (اے آئی) پروگرام سے پتا چلا کہ فلسطینی شاعر اسرائیل کو مطلوب افراد کی فہرست میں شامل تھے۔اسرائیل کی فوج نے اس وقت ایک بیان میں کہا کہ ابو طحہٰ سے اس لیے پوچھ گچھ کی گئی کیوں کہ انٹیلی جینس معلومات سے پتا چلا تھا کہ غزہ کی پٹی کے اندر کئی شہریوں اور ’دہشت گرد‘ تنظیموں کے درمیان متعدد بار رابطہ ہوا۔