اسلامی سال نوکاپیغام حیات

   

اسلامی اعتبارسے نئے سال کا آغازماہ محرم الحرام سے ہوتاہے، حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے عہدخلافت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشاورت کے بعد متفقہ طورپر نئے سال کے آغازکیلئے سن ہجرت کا انتخاب ہوا،سب سے پہلی وحی مکۃ المکرمہ غارحرامیں نازل ہوئی ،اسلام کے اعلان کے بعدمسلمان ستائے گئے ،ان پر ظلم کے پہاڑتوڑے گئے ،اسلام کے احکامات پر عمل کرنے کی آزادی چھین لی گئی تھی ،معاشرتی ،سماجی وسیاسی سطح پر جوحقوق شہریوں کوملنے چاہیے ان سے مسلمان محروم تھے۔ انصاف رسانی کیلئے اللہ کے سواکسی اورکا دروازہ کھٹکھٹا نے کی سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں تھی جبکہ اس مادی دنیا میں انصاف کیلئے حکام سے رجوع کرنا نظام اسلامی کا ایک حصہ ہے،باطل کی یلغارنے حق پر چلنے والے مسلمانوں کوحق پر رہنے اورحق کی اشاعت سے محروم کردیا تھا،اورمسلمانوں کی مظلومیت انتہا ء کو پہنچ گئی تھی ایسے میں ہجرت کا حکم ملا ،باطل ہمیشہ حق سے نبردآزما رہا ہے ، اللہ سبحانہ کی رضاوخوشنودی کیلئے ہجرت کرنے سے حق کے راستے کھلتے ہیں ،باطل کی مدافعت کرنے اورحق کے پھیلانے کے مواقع میسرآتے ہیں ، چنانچہ مدینہ پاک ہجرت کے بعدمسلمانوں کی مظلومیت کا دورختم ہوااورباطل کی پسپائی کا دورآگیا،تمام شعبہائے حیات میں اسلامی احکام کا سکہ رائج ہوگیا،مسلمانوں کو سربلندی نصیب ہوئی ،اللہ سبحانہ کے سوا اب کسی کی حاکمیت باقی نہیں رہی، ہجرت کے بعداسلام کی روشنی تمام بلادوامصارسے ہوتے ہوئے سارے عالم میں پھیل گئی،ہجرت کا واقعہ گویا حق وباطل کے درمیان خط فاصل بن گیا،سال نوکے آغازکیلئے سن ہجرت کا انتخاب کئی ایک عظیم مصالح کا آئینہ دارہے ۔سال نوکا آغازمسلمانوں کو ایک انقلابی ودعوتی پیغام دے رہا ہے ،اس پیغام کی روح اورخلاصہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے اداروں ،کاروبارومعاملات اورمعاشرتی اُمورکی انجام دہی میں سن ہجری کا لحاظ رکھیں ،سن ہجری ایک طرح سے اسلامی شعارہے اسلئے اسکی برقراری اوراسکی حفاظت میں مسلمان سنجیدہ رول اداکریں،سعودی حکومت جوبکثرت امورمیں سن ہجری کا لحاظ رکھتی تھی اوراپنے ماتحتین وملازمین کی تنخواہیں اسلامی کیلنڈرکے اعتبارسے ایصال کرتی تھی ،نئے سال کا آغازمحرم الحرام سے ہوتا اوراختتام ماہ ذی الحجۃ الحرام پر ،لیکن اب نئے قوانین کے روسے سال نوجنوری سے ڈسمبرپر مشتمل رہیگا،یہ تبدیلی صرف کچھ مالی بچت کیلئے کی گئی ہے ،اسلامی کیلنڈرچونکہ مروجہ گریگورین کیلنڈرسے کچھ دن چھوٹا ہوتا ہے ،عالمی سطح پر یہی کیلنڈر رائج ہے اسلئے اس پر عمل سے آجرین کی مدت محنت زیادہ ہوجائے گی اور حکومت کوکچھ مالی بچت حاصل ہوگی،

اسلامی کیلنڈرکے مطابق تنخواہیں ایصال کی جائیں توآجرین کو کچھ مالی فائدہ زیادہ ہوگا، اس معمولی وحقیرمالی فائدہ کی غرض سے سعودی حکومت نے جوقدم اٹھایا ہے وہ ایک طرح سے اسلامی شعارپر ضرب کاری ہے ،ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جن نادانیوں کے ارتکاب اوراسلام دشمن طاقتوں کا نرم نوالہ بننے کی وجہ جومصائب وآلام درپیش ہیں کوئی حکمت عملی اختیارکرکے اس سے نکلنے کی سنجیدہ کوشش کی جاتی ،اسلام دشمن طاقتوں کے زیررہنے کے بجائے انکوزیراثررکھنے کی کوشش کی جاتی، مالی مشکلات سے نکلنے کی یہ ایک اہم راہ ہے ،اسلام دشمن طاقتوں کاتوہدف ہی یہ ہے کہ مسلمانوں کے دین وایمان پر حملہ کرنے ساتھ انکی معیشت کوتباہ وتاراج کیا جائے ، اس وقت زمین پر جتنے مسلم ممالک ہیں ان میں سے اکثراس مصیبت سے دوچارہیں ،اپنے ہی ہاتھوں اپنے دینی بھائیوں کا گلا گھوٹنے کی جوتاریخ امت مسلمہ رقم کررہی ہے وہ ایک افسوس ناک داستان ہے اوریہ سب اسلام دشمن طاقتوں سے تعلق رکھنے اورانکے زیراثررہ کرکارحکومت چلانے کی وجہ سے ہے۔

ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا خون کیسے بہا سکتاہے، مسلم حکومتیں ایک دوسرے کی رعایا کا قتل ،خون کیسے کرسکتی ہیں اورکس طرح دشمن طاقتوں سے ہتھیارخریدکراپنے ہاتھوں کیسے اپنے پیرپر کلہاڑہ چلاسکتی ہیں ؟اورکیسے ایک دوسرے کے املاک کو تباہ وتاراج کرسکتی ہیں ۔ اللہم احفظنا۔حدیث پاک کی روسے مسلمان کہتے ہی اسکوہیں جسکی زبان اوراسکے ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ۔اورمومن وہ ہے کہ جس سے دوسرے مومن اپنی جان ومال کے بارے میں مامون ومطمئن رہیں ۔ الغرض اسلام ،اسلام کے تقاضے ،اسلام کا طرزحکمرانی، اللہ کی زمین پراللہ کے احکامات کا نفاذ ،زندگی کے سارے شعبوں میں اسلامی احکامات کی اجرائی اور سن ہجری مسلمانوں کوعزیزہونا چاہیے ۔اس وقت دنیا میں خود غرضی عام ہے ایک دوسرے کا لحاظ وپاس،ہمدردی وغمخواری ،مروت ومہربانی ،اخوت وبھا ئی چارہ جیسے عالی اخلاق قصے کہانیاں ہوکررہ گئے ہیں۔ ایسے میں سن ہجرت کے آغازسے یہ تصوربھی تازہ ہونا چاہیے کہ پھرسے مسلمان ان عالی اخلاق کواختیارکریں،سیدنا محمدرسول اللہ ﷺ نے مدینہ پاک ہجرت کے بعدانصارومہاجرین رضی اللہ عنہم کے درمیان بھائی چارہ اور مؤاخات قائم فرمایا تھا،اسلامی احکام پر عمل کی برکت سے یہ بھائی چارہ اہل اسلام کے درمیان مدتوں قائم رہا،اسکی وجہ وہ دشمن پرغالب رہے ۔سن ہجری کا آغاز اس وقت مسلمانوں کو درس دے رہا ہے کہ پھرسے وہ اسلامی احکا مات پر سچے دل سے عمل کرتے ہوئے نہ صرف اپنے درمیان بلکہ حضرت آدم وحواعلیہماالسلام کے حوالے سے ساری انسانیت کے درمیان اخوت وبھا ئی چارہ قائم کریں ۔ یہ پیغام مسلم ممالک کے حکمرانوں کیلئے بھی ہے اورزمین پر بسنے والے سارے مسلمانوں کیلئے بھی، ہمارے ملک ہندوستان خاص کر حیدرآبادمیں آئے دن اخبارات میں یہ خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں کہ فلاں مسلم نے فلاں مسلم کو ،فلاںمسلم رشتہ دارنے فلاں مسلم رشتہ دارکوقتل کردیا ہے۔اوراکثریہ قتل زمین وجائیداداورزمینوں کے کا روباری اختلاف کا نتیجہ بتا یا جاتاہے ،امت مسلمہ کی زندگی کا یہ کس قدرافسوسناک اورتاریک ترین پہلوہے !بے دینی ،بددیا نتی،دنیاکی ناجائزحرص وہوس انکومعمولی منفعت کیلئے اپنے بھائی کے قتل وخون پر آمادہ کررہی ہے ،غورکریں کہ اسلام توساری انسانیت کے احترام کی تعلیم دیتا ہے،مسلم بھائیوں ہی کی نہیں بلکہ غیرمسلم بھائیوں کی جان ومال ،عزت وآبرو کی حرمت کوایک جیسی بتاتا ہے،خون مسلم کی جوسزااسلام نے مقررکی ہے وہی ایک نامسلم کے خون کی بھی ہے،انسانیت کے حوالہ سے اسلام انسانی حقوق کے بارے میں مسلم وغیرمسلم کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتا،افسوس کہ مسلمانوں نے اسلام کے اس آفاقی انسانیت نوازپیغام کوبھلادیا ہے،اس افسوسناک وغمناک صورتحال میں اولاً والدین ،بزرگ افرادخاندان ،ثانیاً زعمائے ملت اورملی تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر خصوصی توجہ دیں،امت مسلمہ کواس کی برائی سے باخبرکریں اوراس مصیبت سے چھٹکا رہ دلائیں ۔خصوصا نسل نوکوبرائیوں کے تاریک راستوں سے ہٹاکر خیروبھلائیوں کی روشن شاہراہ پرلائیں۔ شمس وقمرکے طلوع وغروب سے گردش لیل ونہارجاری ہے ،سیکنڈوں ،منٹوں ،گھنٹوں نے دن ورات کو اپنے گھیرے میں رکھاہے ،یہی رات ودن ،ہفتوں ،مہینوں میں تبدیل ہوکرایک سال کی گردش پوری کرلیتے ہیں ۔اسی کو وقت کہا جاتاہے ،وقت کیا ہے ؟وقت دراصل انسان کی عمرہے ، الوقت ہوعمرالانسان ۔ عمرکے اس قیمتی حصہ کواگرلا یعنی ،بے کاروفضول اعمال واشغال اختیارکرکے ضائع کردیا جائے تواس سے بڑھ کر کیا نا دانی ہوسکتی ہے ،فما قیمۃ العمراذالم نتزودمنہ للآخرۃ اس عمرکی قدروقیمت ہی کیا ہوسکتی ہے جسکوضائع کردیا جائے اوراپنے لئے زادآخرت تیارنہ کرلیا جائے ۔

اللہ سبحانہ نے ایمان والوں کو حکم دیا ہے اے ایمان والواللہ سے ڈرواورچاہیے کہ ہرشخص توجہ کرے کہ اس نے آنے والے کل کیلئے کیا بھیجا ہے،اللہ سے ڈرتے رہواللہ سبحانہ تمہارے اعمال سے باخبرہے۔(الحشر:۱۸)وقت کا غلط استعمال انسان کی دنیا وآخرت دونوں کو تباہ کرتا ہے اوراس کے صحیح استعمال سے دنیا وآخرت دونوں سنورسکتے ہیں ،انفرادی زندگی ہوکہ اجتماعی زندگی ہردوکی کامیابی کیلئے یہی ایک نسخہ جامعہ ہے۔قرآن پاک کی اورمتعددآیات سے وقت کی اہمیت ثابت ہے۔اللہ سبحانہ نے رات آرام کیلئے بنائی ہے لیکن امت کے یہ نوجوان رات کو سونے کے بجائے سٹرکوں ،چوراہوں،چبوتروں پر اورہوٹلوں،پان ڈبوں کے پاس اپنی قیمتی اوقات ضائع کررہے ہیں اوردن کو سوکرمعاشی بدحالی کا شکارہیں ۔سہ شنبہ ۳؍ستمبرروزنامہ سیاست میں یہ اطلاع شائع ہوئی کہ ایک باحجاب مسلم لڑکی روزجمعہ جب کہ مسلمان مساجدمیں جمعہ کی نمازاداکررہے تھے شہرکے ایک سرکردہ علاقہ جوبلی ہلزکے ایک شراب خانہ میں داخلہ کی کوشش کررہی تھی، حجاب اتارنے کے مسئلہ پرپب کے انتظامیہ اورگاہکوں کے درمیان بحث وتکرارچل رہی تھی ،۴؍ستمبرکے مذکورہ اخبارمیں مسلم نوجوانوں میںپب کلچرکے رجحان کے فروغ پرافسوس کا اظہارکرتے ہوئے والدین ، سرپرستوں اورملت کے ذمہ داروں کوتوجہ دلائی گئی ہے ، یہ صورتحال بڑی غمناک ہے اس کے اسباب وعلل کا گہرائی سے جائزہ لیکرنوجوانوں کو اس گمراہ کن راہ سے ہٹا نے اورعلم وعمل میں ترقی کاا یک منصوبہ بندنشانہ تیارکرنے کی سخت ضرورت ہے، اسلام کا نیا سال ملت اسلا میہ کو اس بات کاپیغام دے رہا ہے۔نئے سال کا آغازنئے عزائم کے ساتھ ہونا چاہیے ،امت مسلمہ کی اصلاح اورانکے غبارآلودآئینہ زندگی کوصاف وشفاف کرنے کی مہم کوتیزترکرنے کے ساتھ ہونا چاہیے ۔