اسلام قبول کرنا چاہتی تھی لڑکی، پولیس نے کیا تھا نظربند، ہائی کورٹ نے دیا انصاف کا فیصلہ

,

   

مدراس ہائی کورٹ کی مدورے بینچ نے جمعرات کو27 سالہ ایک ڈینٹسٹ لڑکی کورہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ ڈینٹسٹ ہندومذہب چھوڑکراسلام قبول کرنا چاہتی ہے، لیکن الزام ہےاس کے والدین کےدباؤمیں پولیس نےاسے نظراندازکرکے رکھا ہے۔ عدالت نےحکم دیتے ہوئےکہا کہ یہ لڑکی کی مرضی ہے کہ وہ کون سا مذہب اختیار کرنا چاہتی ہے۔ جسٹس ایم ستیہ نارائن اور جسٹس بی پوگلیندھی کی بینچ نےکہا کہ لڑکی بالغ ہےاورمذہب اختیارکرنا اس کا بنیادی حق ہے۔

وکیل ٹی تمل ملارنےعدالت میں عرضی داخل کرکےکہا تھا کہ 27 سالہ ڈینٹسٹ نے مذہب تبدیلی کا مطالبہ کرتےہوئے تمل ناڈوکی توحید جماعت سے رابطہ کیا تھا، لیکن جب اس کے والدین کواس کاعلم ہوا توانہوں نےاسے گھرمیں قید کرلیا۔ وکیل نےکہا کہ لڑکی کسی طرح والدین کی حراست سے بھاگ نکلی اورجماعت اہل قرآن وحدیث سوسائٹی سے رابطہ کیا۔ اس نے یہاں شکایت کرتے ہوئےکہا کہ اس کے اسلام قبول کرنےکے فیصلے سے والدین ناراض ہیں اوراس کی جان کوخطرہ ہے۔

لڑکی کے وکیل نےبتایا کہ 19 اگست کولڑکی نے پولیس سے سیکورٹی کا مطالبہ کیا، جس کے بعد پولیس نےاسے گھربھیج دیا۔ 21 اگست کوجب وہ قانونی مدد حاصل کرنےکے لئے اپنی ساتھی کے ساتھ لڑکی کےگھرگئے توپولیس افسرنےلڑکی سے ملنےکی اجازت دینے سےانکارکردیا۔ وہیں دوسری طرف وکیل نے یہ بھی کہا ہے کہ پولیس فرقہ پرست عناصر سےمتاثرتھی، اس لئےلڑکی کوغیرقانونی طورپرحراست میں رکھا گیا۔ جب پولیس نےانہیں لڑکی سے نہیں ملنے دیا توانہوں نے اس کی رہائی کےلئے ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی۔