اسلام میں ریاست کے حقوق

   

اسلام نے اپنی ریاست کو درجل ذیل حقوق دیئے ہیں:
(۱) ریاست کا پہلا حق اطاعت ہے یا شہریوں کا پہلا فرض ہے۔ قرآن حکیم کا ارشاد ہے: ’’اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں صاحب امر ہیں‘‘ (سورۃ النساء۔۵۹) لیکن اس اطاعت کو تیسرے نمبر پر رکھا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اولی الامر کی اطاعت پر خدا و رسول کی اطاعت مقدم ہے۔ اولی الامر کی اطاعت کسی ایسے معاملے میں نہیں کی جائے گی، جس میں خدا اور رسول کی نافرمانی ہوتی ہو۔ اسی کی وضاحت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے ہوتی ہے کہ ’’خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں‘‘ (بغوی) اس طرح اسلام نے ہر اطاعت کو خدا کی اطاعت کے ساتھ مشروط رکھا ہے۔ یہ نہیں ہوگا کہ کوئی بھی طالع آزما دَھن، دھونس اور دھاندلی کے ذریعہ مسند اقتدار پر قبضہ کرلے اور مسلمانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکنے لگے اور مطالبہ کرے کہ اللہ نے مجھے صاحب امر بنایا ہے، لہذا مانو میرا حکم اور کرو میری اطاعت۔ احکام خداوندی کی مطابقت میں ریاست کی طرف سے شہریوں کو جو حکم بھی دیا جائے، اس کی اطاعت ان پر فرض ہے۔
(۲) اسلامی ریاست کا یہ بھی حق ہے کہ شہری اس کے ساتھ تعاون کریں، لیکن یہ تعاون بھی مشروط ہے، صرف نیکی اور پرہیزگاری میں ہوگا، گناہ اور ظلم و زیادتی میں نہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’نیکی اور پرہیزگاری میں تعاون کرو اور گناہ اور ظلم و زیادگی میں تعاون نہ کرو‘‘ (سورۃ المائدہ۔۳) شہریوں کا فرض ہے کہ اچھے اور بھلے کاموں میں ریاست کے ساتھ بھرپور تعاون کریں، اس کے منصوبوں کو کامیاب بنائیں، اس کے لئے آسانیاں پیدا کریں، مسائل نہ کھڑے کریں۔
(۳) شہریوں کا فرض ہے کہ وہ ریاست کے قوانین کی پابندی کریں۔ قانون کا خوف بھی کریں اور اس کا احترام بھی۔ اسلام لاقانونیت کو سخت ناپسند کرتا ہے، اس کا مزاج یہ ہے کہ وہ ہر کام میں نظم دیکھنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب دو شخص سفر کر رہے ہوں تو حکم دیتا ہے کہ ان میں سے ایک کو امیر بنالیا جائے، پھر وہ اپنی ریاست میں کس طرح بدنظمی برداشت کرسکتا ہے۔ چنانچہ فرمایا: ’’اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو‘‘ (سورۃ البقرہ۔۶۰) یعنی لاقانونیت کے رجحان کو اسلامی سختی سے روک دینا چاہتا ہے۔
(۴) شہریوں کا فرض ہے کہ وہ دفاع کے کام میں جان و مال سے پوری مدد کریں، اس سلسلے میں قرآن حکیم کی واضح ہدایت ہے کہ ’’نکلو! خواہ تم ہلکے ہو یا بوجھل اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جانوں کے ساتھ‘‘ (سورۃ التوبہ۔۴۱) ’’ہلکے ہو یا بوجھل‘‘ کے الفاظ اپنے اندر بڑی وسعت رکھتے ہیں، یعنی جب نکلنے کا حکم ہو جائے تو تمھیں اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے بہرحال نکل پڑنا چاہئے، خواہ خوشحالی ہو یا تنگدسی، خواہ ساز و سامان کی کثریت کے ساتھ یا بے سروسامانی کی حالت میں، خواہ موافق حالات میں یا ناموافق حالات میں، وغیرہ۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتوں میں اسلام کے سیاسی نظام کے جو اصول اور بنیادی خاکہ پیش کیا گیا، اس پر مبنی جو ریاست تشکیل پائی وہ خلافت راشدہ کی ریاست تھی۔ یہ علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہوئی تھی، اسی لئے اس کو خلافت راشدہ (راست رو خلافت) کہا جاتا ہے۔ اس ریاست نے شوریٰ، امانت و دیانت، خدا ترسی، عدل و مساوات، بے تعصبی، جوابدہی اور احتساب کی جو مثالیں قائم کیں، وہ تاریخ میں مینارۂ نور کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہاں اتنی گنجائش نہیں کہ ہم خلافت راشدہ کا تفصیلی جائزہ لیں، اس لئے صرف چند مثالوں پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ ان چند مثالوں سے یہ اندازہ بہرحال ہو جائے گا کہ اسلامی ریاست کیسی ہوتی ہے اور یہ خدا کی کتنی بڑی رحمت ہوتی ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے جو مشاورتی کونسل بنائی تھی، اس کے سامنے افتتاحی تقریر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا تھا: ’’میں نے آپ حضرات کو جس غرض کے لئے تکلیف دی ہے، وہ اس کے سواء کچھ نہیں کہ مجھ پر آپ کے معاملات کی امانت کا جو بار ڈالا گیا ہے، اسے اٹھانے میں آپ میرے ساتھ شریک ہوں۔ میں آپ ہی کے افراد میں سے ایک فرد ہوں اور آج آپ ہی لوگ وہ ہیں جو حق کا اقرار کرنے والے ہیں۔ آپ میں سے جس کا جی چاہے، مجھے سے اختلاف کرے اور جس کا جی چاہے مجھ سے اتفاق کرے۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ آپ میری خواہش کی پیروی کریں‘‘۔ (کتاب الخراج)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ جب خلیفہ مقرر ہوئے تو دوسرے دن کندھے پر کپڑے کا تھان رکھ کر بیچنے کے لئے نکلے، کیونکہ یہی ان کا ذریعہ معاش تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ راستے میں ملے اور کہا ’’آپ یہ کیا کرتے ہیں؟‘‘۔ جواب دیا ’’پھر اپنے بال بچوں کو کہاں سے کھلاؤں گا؟‘‘۔ بالآخر ان کے لئے مہاجرین میں سے ایم عام آدمی کی آمدنی کے معیار کو سامنے رکھ کر وظیفہ مقرر کردیا گیا، جو چار ہزار درہم سالانہ تھا، جسے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے وفات سے پہلے وصیت نامہ کے ذریعہ بیت المال کو واپس کردیا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے ان کے عہد خلافت میں ایک صاحب جاڑے کے موسم میں ملنے گئے تو دیکھا کہ ایک بوسیدہ چادر اوڑھے بیٹھے ہیں اور سردی سے کانپ رہے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بازار میں کبھی کسی ایسے شخص سے کوئی چیز نہ خریدتے جو آپ کو جانتا ہوتا کہ وہ قیمت میں امیر المؤمنین ہونے کی بناء پر کوئی رعایت نہ کرے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے بڑے بھائی کا یہ مطالبہ مسترد کردیا کہ انھیں بیت المال سے کچھ رقم دی جائے اور فرمایا ’’کیا تم چاہتے ہو کہ تمہارا بھائی مسلمانوں کا مال تم کو دے کر خود جہنم میں جائے؟‘‘۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس ایک خارجی کو لایا گیا، جو علی الاعلان کہہ رہا تھا کہ ’’میں علی کو قتل کردوں گا‘‘۔ حضرت علی نے اسے چھوڑ دیا اور فرمایا ’’محض زبانی مخالفت کوئی ایسا جرم نہیں کہ اس پر ہاتھ ڈالا جاسکے‘‘۔ علاوہ ازیں حضرت علی ایک غیر مسلم شہری کے مقابلہ میں مدعا علیہ کی حیثیت سے قاضی شریح کی عدالت میں پیش ہوئے۔ قاضی شریح نے اُٹھ کر آپ کا استقبال کیا تو آپ نے فرمایا ’’یہ تمہاری پہلی ناانصافی ہے‘‘۔
ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بھرے مجمع میں سوال کیا کہ ’’اگر میں معاملات میں ڈھیل اختیار کروں تو تم کیا کرو گے؟‘‘۔ حضرت بشیر بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ نے کھڑے ہوکر کہا ’’ہم آپ کو سیدھا کردیں گے‘‘۔ اس پر حضرت عمر نے فرمایا ’’تب تو تم کام کے لوگ ہو‘‘۔ (اقتباس)