اسلام کا نظام معیشت آفاقی معاشرے کی خوشحالی کا ضامن

   

اسلام کی بنیاد چند عقائد پر ہے ، جن میں توحید ، رسالت اور آخرت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔نیز اسلام میں توحید ، رسالت اور آخرت کا جو مفہوم پایا گیا ہے وہ دنیا کے تمام نظریۂ ھائے حیات اور مذاہب سے مختلف ہے ۔ اس وجہہ سے اسلامی طرز حیات کی عمارت بھی دوسرے مذاہب سے مختلف نقشہ لئے ہوئے ہے بلکہ صحیح بات تو یہ ہے کہ توحید ، رسالت اور آخرت کے تصورات ہی اصل میں اسلامی معاشیات اور مغربی معاشیات میں بنیادی اختلاف کا سبب ہیں۔
عقیدۂ توحید میں یہ بات شامل ہے کہ اس ساری کائنات کا مالک ایک ہے ۔ تمام مخلوقات اس کی تابع اور مطیع ہیں اور انسان اس کا نائب اور خلیفہ ہے ، لہذا ضروری ہے کہ وہ خلیفہ ہونے کی حیثیت سے اقتدار پر فائز ہوکر تمام انسانوں سے ہمدردی رکھے ، سب کو اپنا بھائی تصور کرے اور اُنھیں اس بات کی ترغیب و تلقین کرے کہ تمام انسان برابر ہیں ، ان کو آپس میں بھائی چارہ سے زندگی گزارنا چاہئے ۔ اس بنیاد پر تمام ایسی قومی اور بین الاقوامی پالیسیاں جو دوسرے انسانوں اور اقوام کو نقصان پہنچاتے ہوں اسلام کے نزدیک باطل ہیں ۔ اسلام میں معاشیات کا بنیادی قاعدہ ہے ’’لَا ضَرَرَ وَلاَ ضِرَارَ ‘‘ ( نہ نقصان اُٹھاؤ نہ نقصان پہنچاؤ) ۔
اﷲ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک اہم تر صفت ’’رب العٰلمین ‘‘ ہے ’’رب ‘‘ سے مراد پرورش کرنا ، پالنا ، نگہداشت کرنا ، نشوونما دینا کہ ایک چیز اپنے چھوٹے سے چھوٹے مقام سے بڑھ کر اپنی تکمیل کی انتہاء کو پہنچ جائے ۔ لہذا اﷲ تعالیٰ کے نائب کی حیثیت سے انسان کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے اندر اس صفت کی پرورش کرے جس طرح اﷲ تعالیٰ ساری کائنات کو پال رہا ہے ، اسی طرح انسان پر لازم ہے کہ وہ گردوپیش اور زیرکفالت لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مستعد رہے ۔

قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ کے لئے ’’رب الناس‘‘ کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے حالانکہ یہ ’’رب العٰلمین‘‘ میں شامل ہے ، اس کا علحدہ ذکر کرنے سے مراد یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ تمام انسانوں کو بلاامتیاز مذہب و ملت ، رنگ و نسل ، وطن و قوم پال رہا ہے ، یعنی معاشی حالات میں اﷲ تعالیٰ نے ان میں سے کسی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں رکھا ۔ اسلامی ریاست کے لئے اس میں یہ قرینہ ہے کہ اسلامی ریاست کی حدود میں بسنے والے تمام انسانوں کوخواہ وہ کسی بھی ملت سے تعلق رکھتے ہوں معاشی حقوق میں برابر کے مواقع فراہم کریں۔

قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ کے لئے ’’رحمن‘‘، ’’رحیم‘‘ ، ’’غفور‘‘، ’’کریم‘‘ اور ’’ودود‘‘ وغیرہ صفات کا تذکرہ بہت کثرت سے ہوا ہے ۔ نیز قرآن و حدیث سے واضح ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی صفات رحمت و محبت اس کی تمام صفات پر غالب ہیں ۔ اس میں حکمرانی کے لئے واضح اشارہ موجود ہے کہ اسے تمام معاملات میں دوسرے لوگوں کے ساتھ ہمدری ، تعاون ، شفقت ، فیاضی ، عفو، درگزر اور تحمل جیسی صفات پر عمل پیرا ہونا چاہئے۔ چنانچہ اسلامی معاشی حکمت کے دو اہم مقاصد ہیں (۱) عدل و انصاف (۲)احسان ۔ یہ دونوں مقاصد صفات الٰہی سے ماخوذ ہیں۔
جہاں عدل کا قیام حکومت کا اہم ترین مقصد ہے وہاں باہمی معاملات میں ایک دوسرے سے احسان کا رویہ اختیار کرنا شریعت کے منشاء کے عین مطابق ہے ۔ ایک مثالی معاشرے میں حاکم و رعایا ، ملازم و عہدیدار بائع و مشتری ، صارف و صنعت کار ، کسان اور زمیندار میں باہمی تعلقات کا انحصار احسان کی بنیاد پر ہونا چاہئے تاکہ وہ اﷲ تعالیٰ کی صفات رحمت و محبت کے مظہر ہوں۔ اسلامی معاشیات میں تمام اُصول و نظریات کو شریعت الٰہی کے ڈھانچے پر جانچا جاتا ہے ۔ یہ وہ کسوٹی ہے جو کسی نظریہ کے سچ یا جھوٹ ہونے پر حتمی فیصلہ دیتی ہے اور ایسے تمام معاملات میں جن کے بارے میں کوئی مخصوص حکم موجود نہیں ، وہاں شریعت کے بنیادی اُصولوں کی روشنی میں اجتہاد کیا جاسکتا ہے اور یہ اجتہاد بوقت ضرورت قیاس ، رائے ، استحسان، مصالح مرسلہ ، عقلی نظریات اور عملی مشاہدات کی روشنی میں کیا جاتا ہے جوکہ ایک جامع اور عالمگیر کامیاب نظام معیشت کا ضامن ہے ۔

اسلامی معاشیات کی ایک خاص اصطلاح ’’فلاح‘‘ ہے ، اس سے مراد دنیوی زندگی میں ایک انسان کی اطمینان بخش معیشت اور اُخروی زندگی میں فوز و فلاح اور کامیابی و کامرانی ہے ۔ دنیوی اور اخروی زندگی کے دونوں پہلوؤں میں سے آخرالذکر بنیادی اور مرکزی حیثیت رکھتا ہے یعنی فلاح کا اصل دارومدار اُخروی کامیابی پر ہے خواہ اس کے جزء اول یعنی دنیوی زندگی میں یہ میسر نہ بھی آئے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی معاشیات انسان کے افعال و کردار کا مطالعہ صرف اس دنیوی زندگی کے نقطۂ نظر سے نہیں کرتی بلکہ اس میں مرکزی مقام اخروی کامیابی کو حاصل ہے ۔ اسی لئے یہاں پر شریعت کی اتباع ایک عظیم تر مقصد ہے اور باقی تمام افعال کو شریعت کے تابع رکھنا ضروری ہے ۔
مغربی معاشیات کے نزدیک انسان بنیادی طورپر خودغرض ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کے مالی مفاد کا بہترین محافظ وہ خود ہوسکتا ہے ۔ اسے یہ بدگمانی ہے کہ ہر دوسرا شخص اس کا رقیب ہے ۔ لہذا اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ہرحربہ استعمال کرنا چاہئے ۔ مغربی معاشیات کی رو سے اس کی ذات اجتماع (سماج ) سے پہلے اور سماج کے لئے وہ اسی صورت میں قربانی کرسکتا ہے کہ وہ اس کی ذاتی راحت و منفعت میں حرج نہ بنے۔ یہ باور کیا جاتا ہے کہ ہر انسان کا اپنے ذاتی مفاد کے فروغ کے لئے جدوجہد کرنا بالآخر سماج کے بہترین مفاد میں ہے۔ اس کے برعکس اسلام انسان کے بارے میں بنیادی طورپر یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ خالق ارض و سما نے اسے ’’احسن تقویم ‘‘ بہترین سانچے میں ڈھالا ہے ، وہ بنیادی طورپر اعلیٰ اخلاق اور عمدہ فطرت لیکر پیدا ہوا ہے لیکن جب وہ ایمان اور عمل صالح سے غافل ہوجاتا ہے تو پھر ’’اسفل السافلین ‘‘ سب سے نیچے درجے میں گرجاتا ہے اور اس کے اندر خودغرضی ، تنگ نظری ، ظلم و غضب ، حسد و بغض جیسے اخلاق رذیلہ پیدا ہوجاتے ہیں اور یہ برے صفات معیشت پر بھی برے اثرات چھوڑتے ہیں جبکہ اسلام میں عمل صالح اور کارخیر کی ترغیب انسان کو خودغرضی سے دور رکھتی ہے اور انسانی ہمدردی پر آمادہ کرتی ہے ۔ علاوہ ازیں اسلام کا معاشی فلسفہ ملکوں اور قوموں کے محدود مفادات کی تنگی سے بلند ہوکر ایک آفاقی معاشرے کی خوشحالی کا ضامن ہے جس میں چند انسانوں کو دوسروں پر فوقیت دینے، کسی گروہ کی اجارہ داری یا اپنے مفادات کے لئے دوسرے لوگوں کو ترقی کے مواقع سے روکنے کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ۔