اسمرتی ایرانی کا غصہ

   

منی پور میں پیش آئے انتہائی شرمناک اور افسوسناک واقعہ کے بعد سارے ملک میں غم و غصہ کی لہر پائی جا رہی ہے ۔ سارے ملک کے عوام اس واقعہ پر برہم ہیں اور وہ خاطیوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اس واقعہ کے اتنے دن بعد تک حکومت کی جانب سے کوئی کارروائی نہ کئے جانے اور پارلیمنٹ میں مباحث کو کسی نہ کسی طریقہ سے ٹالنے کی حکمت عملی پر برہم بھی ہیں۔ ملک میں شائد ہی کوئی طبقہ ایسا ہو جس نے اس واقعہ پر برہمی اور ناراضگی کا اظہار نہ کیا ہو۔ حد تو یہ ہوگئی کہ حکومت کی تائید کرنے والے میڈیا کی اینکرس تک نے بھی اس واقعہ پر برہمی اور ناراضگی کا اظہار کیا ہے ۔ انہوں نے نہ صرف اپنے مباحث میں بلکہ شخصی ویڈیوز بنا کر بھی اس واقعہ کی مذمت کی ہے اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ اس واقعہ پر پارلیمنٹ میں بھی ہنگامہ آرائی چل رہی ہے ۔ اپوزیشن جماعتیں چاہتی ہیں کہ ایک مخصوص قاعدہ کے تحت مباحث کئے جائیں۔ اس سے قبل وزیر اعظم نریندر مودی اس پر بیان دیں۔ مباحث کیلئے کوئی وقت کی حد مقرر نہ کی جائے ۔ تاہم حکومت ان میں سے کسی شرط کو تسلیم کرنے تیار نہیں ہے ۔ وہ اپنے انداز میں مباحث چاہتی ہے تاکہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ۔ حکومت محض ضابطہ کی تکمیل کیلئے مباحث کروانا چاہتی ہے جبکہ اپوزیشن کا اصرار ہے کہ معنی خیز مباحث ہوں۔ حکومت کی مدافعت میں کئی وزراء بیان بازیاں کر رہے ہیں اور منی پور واقعہ کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش کرتے ہوئے دوسری ریاستوں کے واقعات کا تذکرہ زیادہ کرنے لگے ہیں۔ تاہم گذشتہ دن جب پارلیمنٹ میں مباحث ہو رہے تھے تو اسمرتی ایرانی سب سے زیادہ بھڑک گئیں اور برہم انداز میں انہوں نے نہ صرف اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بنانے کی کوشش کی بلکہ انہوں نے اپنی حکومت کے دفاع کی بھی ناکام کوشش کی ۔ وہ مدلل جواب دینے یا ملک کے عوام کی تشویش پر بات کرنے کی بجائے اونچی آواز اور برہم لب و لہجہ کا سہارا لیا ہے تاہم اس سے نہ حکومت کی ذمہ داری ختم ہوسکتی ہے اور نہ ہی ملک اور ملک کے عوام میں پائی جانے والی ناراضگی کو دور کیا جاسکتا ہے ۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسمرتی ایرانی ایک شعلہ بیان اور جارحانہ تیور والی سیاستدان ہیں۔ وہ اپوزیشن کو تنقیدوں کا نشانہ بنانے میں شہرت رکھتی ہیں ۔ وہ اکثر و بیشتر اپنے ترش رویہ کی وجہ سے بھی خبروں میں رہتی ہیں۔ تاہم اب انہوں نے جس مسئلہ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اور سخت لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے حکومت کا دفاع کرنے کی کوشش کی ہے وہ افسوسناک ہے ۔ اسمرتی ایرانی خود ایک خاتون ہیں۔ جس وقت ملک میں منموہن سنگھ وزیر اعظم تھے اور گیس سلینڈر کی قیمت میں اضافہ ہوا تھا تو انہوں نے ڈاکٹر سنگھ کو چوڑیاں روانہ کی تھیں۔ اب ملک میں گیس سلینڈر کی قیمت میں 250 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے اس کے باوجود وہ خاموش ہیں۔ اگر اس مسئلہ کو نظر انداز بھی کردیا جائے تو خواتین کی عصمت و عفت کے مسئلہ پر کم از کم سیاست نہیں کی جانی چاہئے تھی ۔ یہ صرف کسی ایک خاتون کی بند کمرے میں عصمت ریزی کا مسئلہ نہیںہے ۔ دوخواتین کو برہنہ کرکے پریڈ کروائی گئی اور ان کی عزت نفس کو بھی تار تار کیا ۔ وہ ابھی تک اس کے صدمہ میں ہیں۔ وہ سماج کا سامنا کرنے کے موقف میں تک نہیں ہیں۔ ان کے مجرمین کو دو ماہ سے زیادہ عرصہ تک گرفتار نہیں کیا گیا اور جب اس شرمناک واقعہ کا ویڈیو منظر عام پر آیا تب کہیں جا کر ان کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوا ۔ اس وقت تک مرکزی اور ریاستی دونوں ہی حکومتیں خواب غفلت کا شکار تھیں اور چیف منسٹر کا تو یہ بھی اعتراف ہے کہ اس طرح کے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں۔
حکومت کی ایک ذمہ دار وزیر ہوتے ہوئے حکومت کا دفاع کرنا ایک وزیر کا ذمہ ہوسکتا ہے لیکن ایک خاتون ہوتے ہوئے دوسری خواتین کی بے عزتی اور ان کے ساتھ ہوئی گھناؤنی حرکت کی مذمت کی بجائے حکومت کی مدافعت کرنے کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا ۔ کسی خاتون وزیر سے اسطرح کے رویہ کی امید نہیں تھی ۔ جس طرح منی پور میں پیش آیا واقعہ قابل مذمت ہے اسی طرح اصل مسئلہ سے توجہ ہٹانے کی کوششیں اور کارروائی کا مطالبہ کرنے والوں پر تنقیدیں بھی قابل مذمت ہیں۔ خواتین کی عفت و عصمت کے مسئلہ پر کم از کم سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر موقف اختیار کئے جانے کی ضرورت ہے ۔