اسٹاف کی جانب سے مخالف مسلم واٹس ایپ پوسٹ کے بعد راجستھان کے اسپتال کو جانچ کا سامنا

,

   

ہفتہ کے روز ڈاکٹر سنیل چودھری جو سری چند بارادیا روگ نیدن کیندرا‘ ایک خانگی ہڈیوں کا اسپتال چورو شہر سے پچاس کیلو میٹر کے فاصلے پر ٹاؤن سردار شہر میں چلتے ہیں نے فیس بک پر یہ کہتے ہوئے معافی مانگی ان کے عملے کی منشاء کسی مذہبی گروپ کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کانہیں تھا۔

جئے پور۔ضلع چورو کے ایک خانگی اسپتال کے عملے کی جانب سے مبینہ طور پر مسلم مریضوں کا علاج نہ کرنے کے متعلق واٹس ایپ بات چیت پر مشتمل اسکرین شارٹ جس سوشیل میڈیا پر تیزی کیساتھ

وائیرل ہوا کہ منظرعام پر آنے کے بعد راجستھان پولیس نے اس کی تحقیقات شروع کردی ہے۔

ہفتہ کے روز ڈاکٹر سنیل چودھری جو سری چند بارادیا روگ نیدن کیندرا‘ ایک خانگی ہڈیوں کا اسپتال چورو شہر سے پچاس کیلو میٹر کے فاصلے پر ٹاؤن سردار شہر میں چلتے ہیں نے فیس بک پر یہ کہتے ہوئے معافی مانگی ان کے عملے کی منشاء کسی مذہبی گروپ کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کانہیں تھا۔

پولیس کا کہنا ہے مطلوبہ بات چیت میں ایک شراکت دار مبینہ طور پر جس کوڈاکٹر چودھری کی بیوی کہاجارہا ہے‘ جو خود بھی ایک ڈاکٹر ہیں۔ڈاکٹر(مسرس) چودھری نے اس سے انکار کردیاہے۔

ایک مسیج جو واٹس ایپ گروپ جس کا نام ”برڈیہ رائس“ ہے کے ممبرس کے درمیان ہوئی مبینہ بات چیت میں ایک نے کہاکہ ”کل میں مسلم مریضوں کا ایکسرے نہیں کروں گی۔

یہ میرا عہد ہے“۔ایک اور مسیج اسی فرد کی جانب سے یہ ہے کہ ”مسلم مریضوں کو دیکھنا ہی بند کردو“۔

اسی گروپ کے کسی اور ایک ممبر نے ردعمل پیش کرتے ہوئے کہاکہ ”اگر ہندو مریض مثبت ہوتے ناں‘ مسلم ڈاکٹر ہوتا تو ہندؤو ں کو کبھی نہیں دیکھتے۔

میں نہیں دیکھوں گی مسلم مریضوں کو۔ بول دینا میڈیم بھی ہیں نہ یہاں“۔

شکایت ملنے کے بعد پولیس کا کہنا ہے کہ تحقیقات شروع کردی گئی ہے مگر ایف ائی آر درج نہیں کیاگیاہے۔

سردار شہر کے سب انسپکٹر رامیش پاننو نے کہاکہ ”سردار شہر کے ایک خانگی اسپتال کے عملے کے درمیان میں مبینہ وائس ایپ گروپ پر ہوئی با ت چیت پر مشتمل سوشیل میڈیا پر گشت کررہے

اسکرین شارٹ جو ایک خاص مذہب کے ساتھ امتیازی سلوک پر مشتمل ہے کہ متعلق دو دن قبل پولیس کنٹرول روم کو ایک شکایت موصول ہوئی ہے۔بات چیت کا وقت ہے جو ہے ایسا لگ رہا ہے کہ وہ لاک ڈاؤن کے دوران کا ہے“۔

YouTube video

انہوں نے مزید کہاکہ ”شکایت کردہ نے کہاکہ مسیج فطری طور پر فرقہ وارانہ اور امتیازی سلوک پر مشتمل ہے۔ ہم اس کی جانچ کررہے ہیں اور اب تک کوئی ایف ائی آر درج نہیں کیاگیاہے۔

مسلم کمیونٹی کے ایک لیڈر کا بیان بھی قلمبند کیاگیاہے“۔ پننو نے کہاکہ اسکرین شارٹ کی صداقت اور جنھوں نے اس کو پھیلا یا ہے ان کی بھی جانچ کی جارہی ہے۔۔

چیرو میں مسلمان پریشد سناتھن کے ضلع صدر مقبول خان نے کہاکہ انہوں نے معاملے کی جانکاری پولیس کو دی تھی۔

ایس ائی پننو نے کہاکہ گروپ کے کچھ پیغام پر یہ الزام ہے کہ اس کو ڈاکٹر بھگوتی چودھری نے تحریر کیاہے جو ڈاکٹر سنیل چودھری کی بیوی ہیں۔

جب انڈین ایکسپریس کی ٹیم نے ان سے رابطہ کیاتو ڈاکٹر بھگواتی نے کہاکہ ”یہ صحیح نہیں ہے کہ ہم نے مسلمانوں کے علاج سے انکار کیاہے“۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ مذکورہ پیغامات پر مشتمل اسکرین شارٹس کو ان سے منسوب کیاجارہاہے تو ڈاکٹر بھگواتی نے کہاکہ ”میں نہیں جانتی۔

میں نے یہ نہیں کیاہے“۔ ڈاکٹر سنیل چودھری نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ مذکورہ اسکرین شارٹ دو ماہ پرانا ہے۔

ڈاکٹر چودھری نے کہاکہ ”میں نے سوشیل میڈیا پر ایک معذرت نامہ پیش کیاہے۔ مذکورہ بات چیت اپریل کے وسط کا ہے جب کویڈ معاملات تبلیغی جماعت سے منسوب ہوکر آرہے تھے۔

ہمارے علاقے میں یہاں پر کئی معاملات درج ہوئے ہیں جیسا آپ نے دیکھا ہے۔

کسی نے لکھا ہے اس میں کوئی شبہ نہیں ہے مگر آپ مسلم مریضوں کو جن کا ہم نے علاج کیا ہے وہ تعداد دیکھیں گے تو زمینی حقیقت اور اسبات کا اندازہ ہوگا مذکورہ بات چیت سے اس کو کوئی تعلق نہیں ہے

۔انہوں نے کہاکہ ”بڑے پیمانے پر خوف کے ماحول کے باوجود میں نے 24گھنٹوں نے ہلت کیر کی سہولتیں ہر ایک کو دی ہیں۔ ہم نے مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیاہے۔

ہم نے شکایت کرنے والے کمیونٹی کے لوگوں سے بھی اس ضمن میں بات کی ہے۔ مذکورہ مسلئے کو سیاسی رنگ نہیں دینا چاہئے اور ڈاکٹرس کو بلا کسی وجہہ سے سزا نہیں دینی چاہئے“۔

اپنے فیس بک پوسٹ جس کو ہندی میں تحریر کیاگیاتھا ڈاکٹر چودھری نے لکھا کہ نہ تو وہ اور نہ ہی ان کے عملے کی منشاء کسی کے مذہبی جذبات کو محروح کرنا ہے۔

انہوں نے لکھا کہ”اس کے باوجود مجھے برا لگا‘ میں اور میرا سارا عملہ معافی چاہتا ہے۔ہم یقین دلاتے ہیں کہ مستقبل میں ہمارے اسپتال سے کوئی شکایت کا موقع نہیں ملے گا“۔

حال ہی میں کانپور گنیش شنکر شنکر ویدیارتھی میموریل میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر ارتی داوے لال چندانی کو ایک ویڈیو میں یہ کہتی دیکھائی دے رہی ہیں کہ تبلیغی جماعت کے لوگ”دہشت گرد“ ہیں مگر ہم نے انہیں ”وی ائی پی سہولتیں“ فراہم کررہے ہیں۔

مذکورہ اترپردیش حکومت نے اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر لال چندانی کو ان کے پوسٹ سے ہٹاکر ان کا تبادلہ کردیاہے