اشتعال انگیز تقاریر اور عدالت

   

شبِ تاریک کے سائے سے نہ گھبرانا کبھی
شمع تو ہی، تو ہی شعلہ تو ہی محفل ہوجا

ہریانہ کے ضلع نوح اور دیگر ٹاونس میں فرقہ وارانہ تشدد اور آگ زنی کے واقعات نے سارے ملک کو متفکر کردیا ہے ۔ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ آخر ہم کہاں جا رہے ہیں۔ آخر اس ملک کے نوجوانوں کے ذہنوں کو کس حد تک پراگندہ کیا جا رہا ہے کہ وہ نہ اپنے مستقبل کے بارے میںسوچ رہے ہیں اور نہ ہی انہیں ملک کے مستقبل کی فکر لاحق رہ گئی ہے ۔ وہ صرف ہندو ۔ مسلم سوچ کا شکار ہوگئے ہیں۔ تعلیمی اداروں سے لے کر کام کاج کے مقامات تک ‘ مارکٹوں اور بازاروں سے لے کر ٹرینوں میں تک یہی سوچ کارفرما نظر آر ہی ہے جس کی وجہ سے ملک کے حالات بگڑنے کے اندیشے پیدا ہونے لگے ہیں۔ یہ سارا کچھ میڈیا کے ذریعہ عوام کے ذہنوں کو متاثر کرنے کا نتیجہ ہے اور کچھ وہ گوشے زیادہ ذمہ دار ہیں جو اشتعال انگیز تقاریر کرتے ہوئے نوجوانوں کا استحصال کرنے میںمہارت اختیار کرچکے ہیں۔ وہ اصل مسئلہ سے توجہ ہٹاتے ہوئے کسی بھی مسئلہ کو فرقہ وارانہ نوعیت دینے میں رات دن مصروف ہیں۔ نوح اور دیگر اضلاع میں ہوئے تشدد کے بعد جو احتجاج کیا گیا اس پر سپریم کورٹ نے متعلقہ عہدیداروں کو کل ہدایت دی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کسی بھی فرقہ یا برادری کے خلاف کوئی اشتعال انگیز تقریر ہونے نہ پائے ۔ یہ ملک میںپیدا ہونے والے بیشتر مسائل کا واحد حل کہا جاسکتا ہے ۔ زیادہ تر سوچ جو متاثر ہو رہی ہے وہ اسی طرح کی اشتعال انگیز تقاریر کی وجہ سے ہو رہی ہے ۔کوئی مسلمانوں کو ملک چھوڑنے کہہ رہا ہے تو کوئی ریاست سے چلے جانے کو کہہ رہا ہے ۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ ملک میںرہنا ہوگا تو مودی ۔ یوگی کو ہی ووٹ دینا ہوگا ۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ حجاب نہیںچلے گا تو کوئی حلال گوشت پر روک لگانے کی بات کر رہا ہے ۔ زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ایسا کرنے والوں میں اکثریت ذمہ دار افراد کی ہے ۔ وہ ملک کے قانون کی پاسداری کا حلف لینے کے باوجود قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس طرح کی اشتعال انگیزیاں کر رہے ہیں۔ اشتعال انگیز تقاریر کے نتیجہ میں کئی مرتبہ حالات متاثر ہوئے ہیں لیکن ارباب مجاز نے اس معاملے میں جانبداری کا مظاہرہ کیا ۔
نوح میں پیش آئے تشددکے واقعات کی بھی پوری غیرجانبداری کے ساتھ منصفانہ جانچ اور تحقیقات ہونی چاہئیں تاکہ فساد بھڑکانے والے حقیقی خاطیوں کے چہر وں کو بے نقاب کیا جائے ۔ اس معاملے میں یہ تفصیل سامنے ا ٓرہی ہے کہ پہلے ہی دو مسلم نوجوانوں کے اغواء اور قتل کے ملزم کی جانب سے ایک ویڈیو سوشیل میڈیا پر پیش کرتے ہوئے حالات کو بگاڑنے کی سمت پہل کی گئی ۔ اشتعال انگیز لب و لہجہ اور زبان استعمال کرتے ہوئے میوات کے رہنے والوںکی ہتک کرنے کی کوشش کی گئی ۔ انہیںاشتعال دلایا گیا اور اب اس تقریر پر ناراضگی و برہمی پیدا ہوئی تو اس کا استحصال کرتے ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دی گئی ۔ ایک عام روایت بنادی گئی ہے کہ کسی کے تعلق سے بھی کوئی بھی اشتعال انگیزی کی جائے تاکہ ملک کے نوجوان اور عوام خود انہیںدرپیش مسائل پر توجہ دینے کی بجائے ہندو ۔ مسلم سوچ کا شکار ہوجائیں۔ اقتدار پر فائز افراد اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے رہیں اور ملک میں ایسی ںسوچ پیدا ہوجائے کہ کوئی حکومت سے یا ارباب حکومت سے کوئی سوال نہ کرسکے۔ ان کے وعدوں کی یاد دہانی نہ کروائی جاسکے ۔ انہیں اپنے کام پر توجہ دینے اور ملک اور ملک کے عوام کی بہتری اور ترقی کیلئے کام کرنے پر مجبور نہ کیا جاسکے ۔ اقتدار پر فائز افراد کو سیاسی فائدہ ملتا رہے اور وہ اپنے مٹھی بھر حاشیہ برداروں کی واہ واہی لوٹتے ہوئے اقتدار پر برقرار رہ سکیں۔
ملک کی عدالتوں نے اس سے قبل بھی ایک سے زائدمرتبہ یہ ہدایات جاری کی تھیں کہ اشتعال انگیز تقاریر پر از خود کارروائی کی جائے ۔ ان تقاریر پر روک لگانے کیلئے موثر اقدامات کئے جائیں تاہم ایسا اب تک کچھ نہیں کیا گیا ۔ جہاں تک ہماری ایجنسیوں اور نفاذ قانون کے ذمہ داروں کا سوال ہے تو وہ بھی ایسا لگتا ہے کہ اس معاملے میں فریق بن گئے ہیں۔ وہ ملزمین کو سزائیں دلانے اور کیفر کردار تک پہونچانے کی بجائے انہیں بچانے پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ ان کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے اس سے بچنے کے جواز پیش کرنے لگے ہیں اور حقیقی خاطیوں سے عوام کی توجہ ہٹانے میں مصروف ہوگئے ہیں۔ سپریم کورٹ کی ہدایات پر اگر واقعی عمل کیا جائے ملک کے ماحول کو مزید خراب ہونے سے بچایا جاسکتا ہے ۔